اپریل فول کی حقیقت کیا ہے؟ اس بارے میں بہت کم لوگ جاننے کی کوشش کرتے ہیں ،البتہ مغرب کی دیگر خرافات وواہیات کی طرح اس کو بعض مست مولا نوجوان بڑے چاؤسے مناتے ہیں، جب کہ بہت کم لوگ اس کی تاریخی حقیقت اور مقصدیت سے باخبر ہیں۔ سپین میں مسلمانوں کے زوال کے بعد مسلمانوں پر بے انتہا ظلم و ستم ڈھائے گئے، ان کا قتل عام کیا گیا، ان کے ساتھ کئے گئے امن معاہدوں کو بڑی بے رحمی سے توڑا گیا بلکہ مسلمانوں کو زبردستی اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور تک کیا گیا، اور جو کوئی ترک اسلام سے انکار کر تا تو سزا کے طور ایسے مسلمانوں کو وطن سے بے دخل کرکے ان کا بے دردی سے قتل کردیا جاتا۔
ہیرالڈ لیم سمیت مختلف تاریخ دان لکھتے ہیں کہ جب ابو عبداللہ نے اپنے باپ اور تمام مسلمانوں سے غداری کی تو اس کے نتیجے میں فرنینڈو کو اسپین پر قبضہ کرنے میں بہت آسانی ہوگئی اور اسی ابو عبداللہ کو عیسائیوں نے اپنا مقصد پورا ہونے کے بعد اسپین سے وطن بدر کردیا۔ ابو عبداللہ نے جب غرناطہ کی کنجیاں شہنشاہ فرنینڈو کے حوالے کر دیں تو یہ الفاظ زبان سے اداکئے: ’’اے بادشاہ! خدا کی یہی مرضی تھی، ہمیں یقین ہے کہ اس شہر کی رعایا کے ساتھ فیاضانہ سلوک کیا جائے گا‘‘ اس کے بعد وہ ایک پہاڑ پر چڑھ کر اپنے گزشتہ تخت وتاج اور شان و شوکت کا نظارہ بہ نگاہ ِ حسرت کرنے لگا اور پھر رونے دھونے لگا۔ اس کی ماں نے اس مایوس کن وقت اس ناخلف سے یہ کہا کہ جس چیز کو تم مردوں کی طرح بچا نہ سکے ،اس گم شدہ متاع کے لیے عورتوں کی طرح آنسو بہانے سے کیا فائدہ؟ بہرحال عیسائی حکمران اپنی فطرت پر آگئے اور انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ بدترین سلوک کرنا شروع کیا ،ان کو اپنا مذہب تلوار کی نوک پر بدلنے پر مجبور کیا گیا اور ایک آرڈیننس جاری کیا گیا کہ مسلمان یا تو گھرواپسی کر کے عیسائی ہوجائیں یا مرتدنہ ہونے کے صورت میں ہرجانےکے طور 50 ہزار سونے کے سکے اد اکریں، جو کوئی ایسا نہ کرے وہ یاتوسولی پر لٹکا دیا جائے گا، یا انتہائی اذیت ناک سزا کا مستوجب قرار پائے گا۔اس کے علاوہ مسلمان بچوں کو مدارس میں عیسائی بنانے کے لئے بپتسمہ دیا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے ان ظالمانہ حالات کے پیش نظر اور جان کے خوف سے بہ جبر عیسائی مذہب قبول کرلیا تھا لیکن یہ سب ظاہری اور اوپری طور پر تھا۔ جب بچے گھر آتے تو ان کا منہ ہاتھ فوراً دھویا جاتا تاکہ بپتسمہ کا اثر ختم ہوجائے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ محکوم موظلوم مسلمان جب نکاح کرنا چاہتے تو پہلے گرجا میں جاکر عیسائی طریقے سے شادی کرتے اور پھر گھر واپس آکر دوبارہ اسلامی نکاح کرتے مگر یہ سب کام خفیہ طور سر انجام دیا جاتا ۔ غرض سپین کے مسیحی حکمران مظلوم مسلمانوں پر ظلم وستم روا رکھنے میں شیر ہوگئے تھے ۔ کچھ عرصے بعد یہ عیسائی حکومت سے اعلان ہوا کہ مسلمان عیسائی لباس پہنیں گے ۔ بالفاظ دیگر مسلمانوں سے ان کی شناخت کی ہرہر چیز چھینی جارہی تھی۔ حکمرانوں نے مسلم حکمرانوں سے کئے اپنے کسی عہد وپیمان کی کوئی پاسداری نہیں کی ۔ان سنگ دلوں کے مظالم سے عورتیں اور بچے بھی محفوظ نہیں تھے۔ چلتے چلتے ان پتھردل عیسائی حکمرانوں نے ایک اور چال چلی اور بچے کچھے مسلمانوں سے کہا گیا کہ ان کو آرام سےاسپین چھوڑ کرافریقہ بھیج دیا جائے گا ۔ مسلمان ظالم عیسائی بادشاہ کے جھانسے میں آگئے تاکہ دیار ِ غیر میں اپنا دین مذہب محفوظ رکھیں ۔ انہوں نے سادہ لوحی کے عالم میں اپنا تمام مال و اسباب اور علمی ذخائر جمع کیا اور عیسائیوں کی جانب سے فراہم کردہ بحری جہازوں میں سوار ہوگئے۔ان بچاروں کو علم ہی نہ تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، ان کی صرف یہ طمع ِ خام تھی کہ ہم ظلم کے ماحول اور ظالموں کے نرغے سے دور چلے جائیں گے۔ اگر چہ یہ مسلمان اپنے وطن سے دور رہنے کو دلی طور تیار نہ تھے لیکن ان کو اس بات کی بھی خوشی تھی کہ اُن کی جان بھی بچ جائے گی اور ایمان بھی محفوظ رہے گا ۔ حکومت کے اہل کاروں اور جرنیلوں نے باضابطہ طور بندرگاہ پرمسلمانوں کو وداع کیا اور بظاہر پورے سرکاری بندوبست میں افریقہ جانے کے لئےرخصت کیا۔ جب سمندری جہاز بیچ سمندر میں پہنچا تو پہلے سے ہی طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت ان جہازوں کو غرق کیا گیا۔ اس کے باعث بر سر موقع سینکڑوں مسلمان شہید ہوگئے اور ساتھ ہی ساتھ ان کاوہ قیمتی علمی ذخیرہ بھی سمندربرد ہوگیا جو مسلمانوں نے بڑے مشکل حالات میں صرف ایمانی قوت کےبل پر جمع کیا تھا۔ یہ واقعہ گیارہویں صدی کے اوائل میں یکم اپریل کو پیش آیا تھا ۔ اس انسانیت کش سازش پر اسپین بھر میں عیسائیوں نے اس خیال سے جشن منایا اور خوشیوں سے جھوم اُٹھےکہ ہم نے کس طرح بے یار ومددگار مسلمانوں کو بے وقوف بنایا ۔ اس جشن اورخوشی کو اپریل فول کا نام دیا گیا یعنی یکم اپریل کے بے وقوف۔ اس تاریخ کے بعد مسلمانوں کے ہرے زخموں پر نمک پاشی کے لئے اپریل فول کا دن اسپین سے نکل کر پورے یورپ میں پھیل گیا اور اب یہ دن باقاعدہ طور پوری عیسائی دنیامیں شدومد سے منایا جاتا ہے۔ افسوس صدافسوس !یہ جانے بغیر کہ اپریل فول کا پس منظر کیا ہے ، ہم مسلمان بھی اس بے ہودگی اور انسانی شرافت پر زورد طمانچے رسید کر نےو الےاس دن ایک دوسرسے سے جھوٹ بک کر ، دھوکہ دے کر، عزت داروں کی عزت اچھال کر بے خبری کے عالم میں اپنی ہی جگ ہنسائی میں شریک وسہیم ہوتے ہیں۔ جب یہ دن مسلمانوں کو دھوکے اور مکر وفریب سے شہید کرنے کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ اپریل فول کی اس تاریخ کو جاننے کے بعد جب ہم اس احمقانہ پن کے اخلاقی نقصانات کو ایک نظردیکھیں تو وہ اور بھی سنگین دِکھتے ہیں۔ سب سے پہلا اصولی نقصان تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں پر ہمیشہ کے لئے لعنت کی ہے۔ اسی طرح ایک حدیث رسولؐ میں منافق کی جو نشانیاں اور علامات بتائی گئی ہیں ،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب منافق بات کرے تو جھوٹ بولے۔ اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ جھوٹا شخص ایک تو اللہ کی لعنت ملامت کا مستحق ہوتا ہے ، دوسرے وہ ایک طرح سے نفاق کے درجے میں ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ یکم اپریل کو اپریل فول منانے سے بہ ہوش وگوش اجتناب کریں ،احسا س ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، کوئی سنی سنائی بات یا وٹس ایپ میسج وغیرہ بغیر تحقیق کے آگے نہ بڑھائیں ۔ غرض اپریل فول کے نام پر منائی جانے والی تمام خرافات اور ہفوات سے اسلامی متانت اور وقار کے ساتھ دور رہیں اور کوشش کریں کہ تاریخ کے ایک افسوس ناک واقعہ کی بنیاد پر جگ ہنسائی والی اس یادگار کو منائے جانے کی حوصلہ شکنی کریں ،اس سے خود احتراز کریں اور ودسروں کو اس کی شرپسندی سے بچائیں۔