ڈاکٹر مشتا ق راتھر
منشیات کی لت پچھلی دہائی سے آتش فشاں کی طرح پھٹ رہی ہے اور سب کو صدمے سے دوچار کر چکی ہے۔اس نے نہ صرف منشیات کے استعمال کے متاثرین پر بلکہ پورے معاشرتی تانے بانے پر تباہ کن نتائج کو جنم دینا۔ یہ بنیادی طور پر معاشرے کی اجتماعی ناکامی ہے۔معاشرے کے ایک اٹوٹ سٹیک ہولڈر کے طور پر بدقسمتی سے ہمارے ارد گرد ہونے والی ایسی کسی بھی سرگرمی کا نوٹس لینے اور اس کے مہلک نتائج کو نظر انداز کرنے میں ہمارا نقطہ نظر مایوس کن رہا ہے۔ ہم سوچتے ہیںکہ منشیات کی لعنت کا تعلق میرے قریبی گھر والوں سے نہیں اور اس لئے اس کے خلاف آواز کیوں اٹھائیں؟ انکار کے اس نقطہ نظر نے منشیات کی لعنت کو سماجی سیٹ اپ میں گہرائی تک سرایت کرنے میں سہولت فراہم کی ہے۔ اب صورتحال ہمارے قابو سے باہر ہوتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ہمارے پاس نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد منشیات کی لت میں مبتلا ہوچکی ہے۔
جموں و کشمیر کا جغرافیہ ایسا ہے کہ اس کے آر پار منشیات کی نقل و حمل آسانی سے ممکن ہے۔ وادی کشمیر کو منشیات کے استعمال سے سب سے زیادہ متاثرہ جگہ سمجھا جاتا ہے۔منشیات کی لعنت میں اہم کردار ادا کرنے والے عوامل کثیر جہتی ہیں، جن میں بے روزگاری، تنازعات سے بھرا ماضی، ساتھیوں کا دباؤ، والدین کی اپنے بچوں سے عدم تکمیل شدہ خواہشات اور توقعات، غربت اور بدعنوانی شامل ہیں۔ محققین کے ذریعہ یہ بتایا گیا ہے کہ تمباکو، بھنگ، الکوہل، بینزوڈیازپائنز (نیند کی گولیاں جیسے الپراکس، ویلیم)، افیون (جیسے کوڈین، ہیروئن، مورفین) براؤن شوگر، دم کش (جیسے فیویکول، ایس آر، گلو، پینٹ تھینر، پیٹرول، جوتا پولش وغیرہ) جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر استعمال کی جانے والی منشیات کی اقسام ہیں۔
منشیات کی لت خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے اور یہ تیزی سے ایک سنگین تشویش کا معاملہ بنتا جا رہا ہے، جس سے کم عمر بچوں اور نوجوانوںکی زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں۔منشیات کی سخت اقسام جیسے ہیروئن اورافیون کی دیگر اقسام کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ مرکزی وزیر برائے سماجی انصاف و بااختیاری کے ذریعہ پارلیمنٹ میں پیش کردہ اعداد و شمارپریشان کن ہیں کیونکہ جموں و کشمیر کے تقریباً 10 لاکھ لوگ منشیات کی لعنت کا شکار ہیں، جس میں گزشتہ برسوں میں بے مثال اضافہ ہوا ہے۔وزارت نے مزید بتایا کہ جموں و کشمیر میں 1.44 لاکھ لوگ بھنگ کے فعال صارفین ہیں جن میں 36000 خواتین شریک شراکت دار ہیں۔ یہ معاشرے کے ہر ذی شعور کیلئے عین صدمہ ہے کیونکہ معاشرے کا سب سے کمزور طبقہ تیزی سے منشیات کے استعمال کی لعنت کا شکار ہو رہا ہے۔5.34 لاکھ مرد اور 8000 خواتین کی کافی تعداد افیون کی لت میں مبتلا ہیں۔ مزید یہ کہ 1.6 لاکھ مرد اور 9000 خواتین سکون آور نشے کا شکار ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز (آئی ایم ایچ اے این ایس) سری نگر کی طرف سے کئے گئے ایک حالیہ سروے میں واضح انکشافات سامنے آئے ہیں کہ جموں و کشمیر یوٹی نے پنجاب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، جسے کچھ لوگ بھارت کی منشیات کی لعنت کا دارالحکومت سمجھتے تھے۔
جموں و کشمیر حکومت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 41,110 منشیات کے عادی افراد نے 2022 میں کشمیر میں منشیات کے استعمال کیلئے علاج کی کوشش کی جبکہ ایک سال پہلے یہ تعداد 23,403 تھی جو کہ 2021 کے اعداد و شمار سے تقریباً دوگنی ہے۔ IMHANS، سری نگر میں نفسیات کے پروفیسر ڈاکٹر یاسر راتھرنے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ علاج کیلئے آنے والے عادی افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافے کی بنیادی وجہ ہیروئن کی سپلائی میں کمی کی وجہ سے اس کی قیمت میں اضافہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ریکارڈ شدہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ 2022 میں ایک گرام ہیروئن کی قیمت 2000 سے 3000 روپے تھی لیکن 2023 میں قیمت بڑھ کر 6000 کے قریب پہنچ گئی ہے۔اس لئے بہت سے منشیات کے عادی افرادکے پاس علاج کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔
IMHANS کی طرف سے انجام دی گئی ’’کشمیر میں منشیات کے استعمال کی خرابیوں کا پھیلاؤ اورطریقہ کار (2022)‘‘ کے عنوان سے ایک مطالعہ کے مطابق ہیروئن وادی میں بنیادی منشیات ہے۔اس تحقیق میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ روزانہ ایک گرام ہیروئن پینے والے ایک شخص کی اوسط لاگت 88,183 تھی جو کہ اہم معاشی مضمرات کی نشاندہی کرتی ہے۔IMHANS کے مطابق یہ انکشاف ہوا ہے کہ منشیات کے عادی افراد میں سے دو تہائی سے زائد افراد نے 11 سے 20 سال کی عمر میں منشیات کا استعمال شروع کر دیا ہے۔زیر مطالعہ 91.9 فیصد مریضوں میں متعدد مادوں کا استعمال پایا گیا۔ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ نوعمروں میں دم کشی کا استعمال زیادہ دیکھا گیا۔ نکوٹین، بھنگ، الکوہل، اوپیئڈز اور بینزودیازپائنز 21 سے 30 سال کی عمر کے گروپ میں زیادہ پائے جاتے تھے۔
وادی کشمیر کے جنوبی حصے میں منشیات سے متعلق آگاہی کے اہم پہلو پر کی گئی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 94.17 فیصد جواب دہندگان کو نشہ چھوڑنے کے مراکز کی موجودگی کے بارے میں علم نہیں ہے۔صرف 3.4فیصد جواب دہندگان منشیات کی لت سے نجات کے شعبے میں کام کرنے والی مختلف این جی اوز کے بارے میں جانتے ہیں اور کم از کم 5.4فیصد جواب دہندگان وادی کشمیر میں کام کرنے والے منشیات کی لت سے چھٹکارا مراکز کے بارے میں جانتے ہیں۔
منشیات کے استعمال کرنے والوں اور ان سے وابستہ خاندانوں میں منشیات کی لت کے خاتمے کے بارے میں اتنے بڑے پیمانے پر بے خبری نے اس مسئلے کو اور بھی بڑھا دیا ہے اور یہ اُن کوششوں کو عیاں طور اجاگر کردیتا ہے جن کی اس لعنت کو روکنے کیلئے کرنے کی ضرورت ہے۔
منشیات کا استعمال اور جرائم میں اضافہ
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ منشیات کے استعمال کے واقعات میں اضافے کے رجحان نے معاشرے میں تیزی سے دیگر گھناؤنے واقعات کو جنم دیا ہے۔ انتہائی سکون آور ادویات کی خریداری کیلئے بہت زیادہ نقد رقم کی ضرورت ہوتی ہے اور اتنی مقدار کا انتظام منشیات کے عادی افراد کو منشیات کے حصول کیلئے تمام غیر قانونی طریقے اور ذرائع تلاش کرنے پر مجبور کرتا ہے، چاہے کچھ بھی ہو۔
موجودہ دور میں منشیات کے استعمال کا سنگین اثر خاص طور پر کم عمر افراد میں قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات ہیں۔ ماہرین کی رائے بتاتی ہے کہ منشیات کے عادی افراد میں منشیات خریدنے کیلئے نقد رقم کی مسلسل روانی کو برقرار رکھنے کیلئے خاندان اور رشتہ داروں سے چوری کرنے کی عادت ڈالنا عام ہے۔IMHANS سری نگر میں نفسیات کے پروفیسر ڈاکٹر یاسر راتھر نے واضح طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کشمیر میں بڑھتے ہوئے جرائم کا گراف ہیروئن کے عادی افراد کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے منسلک ہو سکتا ہے، جس کے عادی افراد اپنی منشیات حاصل کرنے کی فرسٹریشن میں چوری اور یہاں تک کہ قتل تک جا رہے ہیں۔
طویل عرصے میں نشے کے عادی افراد نقد رقم کے بغیر کسی رکاوٹ کے بہاؤ کو یقینی بنانے کیلئے منشیات فروش بن جاتے ہیں۔ اس سال مارچ میں شمالی کشمیر کے سوپور کے ڈانگر پورہ گاؤں کے ایک 32 سالہ نوجوان نے اپنی 70 سالہ ماں کا گلا گھونٹ دیا۔ماں کو قتل کرنے کا واضح مقصد منشیات کی خریداری کیلئے رقم کا مطالبہ تھا۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ اننت ناگ کے گوپال پورہ گاؤں میں پیش آیا جہاں ایک نوعمر بیٹے نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر اپنی ماں کی کھوپڑی کو ایک بھاری پتھر سے کچل دیا اور ابتدا میں اپنے باپ پر اس طرح کے گھناؤنے جرم کا الزام لگایا۔ یہ واقعہ وادی کشمیر کے جنوبی خطے میں کوئی پہلاواقعہ نہیں تھا۔عشمقام پہلگام ، جو دنیا بھر میں حضرت زین الدین ولی رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم الشان مزار کیلئے مشہور ہے،میںمیں ایک نانوائی کے بدنام زمانہ واقعہ نے ہر باشندے کے شعور کو عملی طورپر ہلا کر رکھ دیا۔ مبینہ طور پر منشیات کے زیر اثرنانوائی نے اپنے ہی خاندان کے افراد اور پڑوسیوں پر حملہ کیا اور قتل و غارت گری کرنے پر مصر تھاجس کے نتیجے میں اس کی اپنی ماں سمیت تین افراد ہلاک اور سات زخمی ہوئے۔ یہ انتہاہے کہ ہم ایک معاشرے کے طور پر کہاںجا رہے ہیں اور ابھی بھی ہم تدارک کیلئے ایکشن پلان کی تلاش کی خاطر معاملہ کی گہرائی تک جانے کو تیار نہیں ہیں۔
بحیثیت معاشرہ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں ناامیدی اور بے بسی کا احساس ہوتا ہے۔ ایک معاشرے کے طور پر منشیات کے استعمال کی لعنت کو کم کرنے کیلئے ہمارے سامنے ایک مشکل کام ہے اور اسلئے ہمیں منشیات کے استعمال کی اس کثیر الجہتی جنگ سے لڑنے کیلئے ایک آؤٹ آف باکس حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ تعلیمی ادارے اس لعنت کو ختم کرنے میں بہت بڑی خدمات انجام دے سکتے ہیں بشرطیکہ وہ مشنری موڈ پر اس سنگین چیلنج کا مقابلہ کریں۔ احتساب کے فقدان اور سازگار ماحول کے پھیلاؤ نے منشیات کی لعنت کے پھیلاؤ میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔سب سے زیادہ کمزور طبقہ وہ نوجوان ہیں جو پرائیویٹ ٹیوشن سنٹروں میں داخلہ لینے والے ہجوم میںشامل ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ انتظامیہ کچھ پیشگی اقدامات کرے، انہیں اس مسئلے کے بارے میں حساس بنائے اور انہیں اپنے مراکز میں رجسٹرڈ طلباء کے تئیں ذمہ دار بنائے۔
(ڈاکٹر مشتاق راتھر ایک ماہر تعلیم ہیں۔)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔