اشفاق پرواز
دورِ حاضرمیں اُمتِ مسلمہ کے تشخص ، اجتماعی مفادات ، ملی نصب العین اور اس سے وابستہ ڈیڑھ ارب لوگوںکے ماضی ،حال اور مستقبل پراگر ایک سرسری نظر ڈالی جائےتو یہ بات بخوبی نمایاں طور سامنے آجاتی ہےکہ عصرِ حاضر میں ہر سطح پر اور ہر معاملے میں اُمت ِ مسلمہ کی صورت حال خستہ، شکستہ، سنگین اور تشویش ناک ہے،جوکہ ایک لمحہ ٔ فِکریہ ہے۔اس لئے لازم ہےاور وقت کا تقاضا بھی ہےکہ اُمت ِ مسلمہ اپنے عروج و زوال کی طویل تاریخ پر نگاہ رکھتے ہوئے موجودہ حالات کا معروضی تجزیہ کریں اور ماضی و حال کے جائزے کی روشنی میں مستقبل کی صورت گری کرنے کی کوششوں میں جُٹ جائیں۔ جس لئےاُمت کویہ دیکھنا ہوگا کہ کس قوتِ محرکہ کے طفیل ہم عروج و کمال سے بہرہ مند ہوئے اور کن عوامل کے سبب شوکت و عظمت سے محروم ہو کر گوناگوں مسائل کی آماجگاہ بن گئے ۔ ملت ِاسلامیہ کے وجود کو لاحق عارضے کی دُرست تشخیص کے بغیر کوئی مسیحائی تدبیر کارگر نہیں ہو سکتی اور دُرست تشخص کے لیے ضروری ہے کہ ہم جذبات کی تُندی اور تیزی سے آزاد، ہر نوع کی عصبیت سے پاک ہوکر اپنے مرضِ کہن کی تہہ تک پہنچیں اور پھر اسکی موثر چارہ گری کا اہتمام کریں۔
آج جب ہم عالم اسلام پر نگاہ دڈالتے ہیں اور مختلف شعبہ ہائے حیات میں اپنی کارکردگی کا موازنہ مادی طور پر ترقی یافتہ اور خوشحال دُنیا سے کرتے ہیں تو ایک حوصلہ شکن تصویر سامنے آجاتی ہے۔اس تصویر کا سب سے اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے ۔ انہیںبدترین قسم کی سفاکی اور بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اپنے کشمیر کی ہی بات کریں ،تو عرصۂ دراز سے چلے آرہے نا مساعد حالات کے باعث یہاں کے لوگوں مشقِ ستم بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔اب تک ہزاروںلوگوں کی جانیں تلف ہوچکی ہیں، نوجوانوں کی ایک پوری نسل ختم کر دی گئ ہے ۔بستیاں قبرستانوں میں تبدیل ہو چکی ہیں ۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں کاغذ کے ناکارہ پرزے قرار دئے جارہے ہیں۔ظلمات کی رات ڈھلنے کا نام نہیں لیتی ہے اور اکیسوں صدی کا سورج بھی بے بسی سے یہ دلدوز منظر دیکھ رہا ہے۔ فلسطین کے عوام آزاد فلسطینی ریاست کے مبنی برحق مطالبے کے لیے آواز بلند کررہے ہیں اور انبیا کی سر زمین کے کوچہ و بازار نوجوانوں کے لہو سے رنگین ہو رہے ہیں ۔ اسرائیل انسانی تاریخ کے شرمناک مظالم کا ارتکاب کر رہا ہے اور نہتے فلسطینیوں کی بستیوں پر آتش و آہن کی بارش ہو رہی ہے ۔ بوسینیا کے عوام پر ٹوٹنے والی قیامت کے زخم بھرنے میں نہیں آرہے ہیں۔ افغانستان کی حالت زار اور اپنی آزادی و خود مختاری کا تاریخ ساز معرکہ لڑنے اور سرخ رو ہونے کے باوجود ابھی تک استحکا م و ترقی و خوشحالی کی نوید جانفزا سے محروم ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں پرعمل درآمد کے سلسلے میں امتیازی رویے نے اس عالمی ادارے کے ساتھ وابستہ توقعات مجروح کئےہیں۔ مہذب دنیا خاموشی سے یہ تماشا دیکھ رہی ہے کہ مشرقی تیمور کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرارداد کو فوری طور پر عملی جامہ پہنا دیا جاتا ہے لیکن فلسطین اورکشمیر خطوںکے بارے میں اسی ادارے کی قراردادیں نصف صدی سے معرض التوا میں پڑی ہیں ۔اقوام متحدہ کی اس امتیازی روش سے عالمی ضمیر کے اندر بھی کوئی خلش پیدا نہیں ہو رہی اور صورتحال کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان مسائل اور مصائب کے بارے میں اُمتِ مسلمہ بھی پوری طرح ہم آواز اور ہم قدم نہیں ہے۔
جب ہم دنیا کے موجودہ معاشی ، سیاسی ، سماجی ، ثقافتی اورتہذیبی منظر نامہ پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر پیچھے مڑ کر اپنی ماضی کی تاریخ میں جھانکتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اسلوب حیات میں غیر معمولی تبدیلیاں آچکی ہیں،ایسے تغیرات مسلسل رونما ہو رہے ہیں جن کا قبل ازیں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ابلاغ عامہ اور ترسیل معلومات کے ایسے ایسے ذرائع اور وسائل ایجاد ہو رہے ہیں، جن سے ہماری گزشتہ نسلوں کو سابقہ پیش نہیں آیا ۔ اس ابلاغی انقلاب اور اطلاعاتی پھیلاو کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج روئے زمین کا کوئی بھی خطہ تہذیب و ثقافت ،عقاید و نظریات اور اخلاق و اقدار کو ان ہمہ گیر تبدیلیوں کے اثرات سے بچا کر نہیں رکھ سکتا ۔ مغرب کی اس منہ زور یلغار کے سامنے بند باندھنے کی کوئی حکمت عملی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک ہم خود اسی تکنیکی مہارت سے آراستہ ہو کر اپنی تہذیب و ثقافت کے توانا پہلوئوں کو دنیا کے سامنے نہیں لاتے۔ محض وعظ و تلقین یا غیر حقیقت پسندانہ دفاعی حربوں کےذریعے اس یلغار کو روکنا ممکن نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن و سنت کی تعلیمات ،اسلام کے انسانیت نواز پیغام اور اپنی روشن تہذیبی اقدار کو پوری قوت اور خوداعتمادی کے ساتھ دنیا پر آشکارا کریں۔یہ عصر جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ اسلوب ِ تبلیغ ہے، جس کے لیے ہمارے اہل علم و دانش اور انفار میشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کو زبر دست محنت کرنا ہوگی۔
تہذیبوں کی کشمکش محض ایک مناظرہ نہیں ہوتی، جس میں دلیل اور جوابی دلیل کی قوت ہی کو کافی سمجھ لیا جائے ۔تہذیبوں کا عروج و زوال ایک ہمہ گیر سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی سرگرمی سے عبارت عمل ہے جو برس ہا برس کے بعد تشکیل پاتا ہے ۔آج مغربی تہذیب کے پھیلاو اور قوتِ تسخیر کا بنیادی سبب دراصل جدید علوم اور سائنس پر اسکی گرفت ہے، جس نے اسے سیاسی اور اقتصادی طور پر مستحکم بنا دیا ہے اور یہی وہ پہلو ہے جو پوری ملت اسلامیہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔
سائنس ، ٹیکنالوجی ،عصر حاضر کے علوم و فنون اور علم و حکمت کے مختلف شعبوں پر عبور مسلمانوں کا خاصہ رہا ۔ قرآنی تعلیمات میں کائنات کے سر بستہ رازوں کی تحقیق و جستجو کو بہت زیادہ اہمیت دی گئ ہے ۔اسلام کی نظریاتی اقدار اور سائنسی ارتقا کے درمیان کبھی تصادم و پیکار کی فضا پیدا نہیں ہوئی بلکہ جدید سائنسی علوم پر دسترس اسلام کی متحرک اور روشن خیال فکر کا حصہ رہی۔ ساتویں سے چودھویں صدی عیسوی تک ہم اسلام کے اس پہلو کو معراج کمال پر دیکھتے ہیں۔یہی وہ دور ہے جب کیمیا ، طبیعات،علم الہندسہ،فلکیات ،طب، فلسفہ اور تاریخ کے شعبوں میں جابر بن حیان،الکندی، الخوارزمی، الرازی، الغزالی اور ابن خالدون جیسے عالی قدر مفکرین ، سائنس داں اور اہل حکمت و دانش دکھائی دیتے ہیں۔اسلام کی فکر انگیز تعلیمات سے آراستہ ان شخصیات نے اپنی تحقیقات اور افکار کے ذریعے کائنات کے اسرار و رموزکے مطالعہ و تحقیق کا ذوق وشوق پیدا کیا ۔فروغ علم کے اس زرین عہد میں علم و حکمت کا جو عظیم خزانہ سامنے آیا ،اس کی مثال یونان سمیت کسی خطہ ارضی کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔فکر تازہ کی اس لہر نے یورپ سمیت دنیا کے کئ خطوں کی نسل نو کو علم و فن کی نئ بلندیاں سر کرنے کا سلیقہ عطا کیا ۔افسوس کہ علم و حکمت کا یہ کارواں تاریخ کے ریگزاروں میں کھو گیااور سلطنت علم کی فرمانروائی کھوتے ہی ہمہ پہلو زوال ہمارا مقدر ہوگیا۔سلطنت علم کی فرمانروائی سے محرومی، سیاسی زوال کا پیش خیمہ بنی ۔ سیاسی زوال نے تہذیبی جاہ و جلال کی چکا چوند ماند کردی ۔ان سارے عوامل نے یکجا ہوکر مسلمان خطوں کو معاشی پسماندگی کی تاریکیوں میں دھکیل دیا اور معاشی پسماندگی کے سبب مسلمانوںکے کم و بیش سارے علمی مراکز سامراج کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے گئے ۔
بیسویں صدی کے نصف اول میں سیاسی بیداری کی لہر اٹھی اور بہت سے اسلامی ممالک نے سامراج سے آزادی حاصل کر لی۔ اس سے بجا طور پر یہ توقع کی جانے لگی کہ آزاد اسلامی ممالک میں ایک بار پھر اسلام کے حقیقی تصور کی کارفرمائی ہوگی ۔دانش کدے پھر سے آباد ہونگے ۔علم و حکمت کے سر چشمے پھر سے پھوٹ پڑیں گے اور تحقیق و جستجو کی دشت ویراں پھر سے بر ی ہوجائے گی ۔ لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا ۔ بلا شبہ بعض اسلامی ممالک نے اس میدان میں قابل ذکر پیش رفت کی ۔صنعت و حرفت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے بعض شعبوں میں قابل قدر ترقی کی مثالیں بھی سامنے آئیں۔لیکن ان مثبت اور حوصلہ افزا پہلوئوں کے باوجود عالم اسلام اجتماعی طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مغربی اقوام کے ہم قدم نہیں ہوسکا۔
آج انڈونیشیا سے مراکش تک پھیلے ہوئے اسلامی ممالک کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کے بیس فیصد کے لگ بھگ ہے لیکن اس آبادی کا تقریباًچالیس فیصد حصہ ناخواندہ ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سارے اسلامی ممالک کی مجموعی افرادی قوت صرف ۸۰ لاکھ کے لگ بھگ ہے جو اس شعبے میںمصروف کار عالمی آبادی کا صرف چار فیصد ہے۔تحقیق اور ترقی معنی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے میدان میں ان اسلامی ممالک کا حصہ عالمی افرادی قوت کے ایک فیصد سے بھی کم ہے ۔ ساری اسلامی دنیا میں یونیورسٹیوں کی تعداد تقریباً ۳۵۰ ہے جن میں مجموعی طور پر سالانہ صرف ایک ہزار پی ایچ ڈی اسکالر فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ ان ممالک میں یونیورسٹی کی سطح پر سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرنے والے طالبِ علموں کی تعداد صرف ۲۰ فیصد ہے۔ اور یہ وہ ممالک ہیں جن کی افرادی قوت سوا ارب انسانوں کے لگ بھگ ہے جنکی آزاد مملکتیں تقریباً تین کروڑ مربع کلو میٹر پر محیط ہیں ۔ جو تیل کے مجموعی ذخائر کے تین چوتھا ئی حصے کے مالک ہیں جن کے پاس لا محدود معدنی دولت ہے جو بے پناہ زرعی استعداد کے حامل ہیں اور جہاں کے لوگ جفا کش ، ہمت شعار اور بے مثال ذہنی صلاحیتوں کے مالک ہیں ۔
کیا یہ لمحہ فکریہ نہیںکہ ان تمام اسلامی ممالک کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار صرف بارہ ہزار بلین ڈالر ہیں۔رقبے اور آبادی کے لحاظ سے کہیں چھوٹے ممالک فرانس، جرمنی ، اور جاپان کی مجموعی قومی پیداوار با لترتیب ۱۵ہزار بلین، ۲۴ ہزار بلین اور ۵۵ ہزار بلین امریکی ڈالر ہیں ۔ یعنی مجموعی طور پر صرف ان تین ممالک کی مجموعی پیداوار ۹۴ ہزار بلین ڈالر بنتی ہیں ۔ دنیا کی مجموعی بر آمدت میں مسلم ممالک کا حصہ ساڑھے سات فیصد اور مجموعی عالمی معیشیت میں ہمارا حصہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ مسلم ممالک پر تقریباً سات سو بلین ڈالر کا قرضہ ہے ۔اور ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ذہین اور اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک نوجوان حالات کار کی ناموزونیت اور محدود امکانات کے باعث ترک وطن کر جاتے ہیں ۔ پاکستان ، مصر ، ایران، شام، بنگلہ دیش، ترکی ، الجزائر ،لبنان اور اردن اسی سنگین مسلے سے دوچار ہیں ۔ یہ ایک نہایت ہی اہم مسلہ ہے اور اگر ہم نے اس پر توجہ نہیں دی تو حالات کی سنگینی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور آنے والا منظر زیادہ دلکش نہیں ہوگا۔
اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہم علم و حکمت کے تمام شعبوں بالخصوص سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ و ارتقا کے لیے ہنگامی کوششیں کریں اور اس مقصد کے لیے پورا عالم اسلام ایک بھر پور تحریک کا آغاز کرے ۔ہمیں یہ حقیقت ذہن میںرکھنی چاہیے کہ سیاسی آزادی و خود مختاری کے لیے اقتصادی استحکام بنیادی شرط ہے اور اقتصادی استحکام کے لیے لازمی ہے کہ ہم صنعت و حرفت ،سائنس و ٹیکنالوجی میں دنیا کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے کا عزم کریں ۔اپنے وسائل مجتمع کر کے ایسے ادارے قائم کریں جو جدید ترین سہولتوں سے آراستہ اور امت مسلمہ کی نوجوان افرادی قوت کے لیے کافی ہوں۔
اپنے مسائل کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں اس پہلو کا پوری شرط و بسط کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے کہ امت مسلمہ کے درمیان اتحاد و اتفاق اور اخوت و یگانیت کی وہ مثالی فضا کیوں قائم نہیں ہو سکی جو توحید و رسالت پر ایمان رکھنے کا منطقی تقاضا ہے۔ یہ پہلو قابل غور ہے کہ فکری، نظریاتی اور تہذیبی ہم آہنگی کے باوجود ہم اقتصادی اور سیاسی تعاون کے بے پناہ امکانات کو عملی جامہ پہنانے سے کیوں قاصر ہیں۔امت کے اجتماعی وسائل ،امت کو درپیش مسائل کا مداوا کیوں نہیں کر پا رہے ہیں۔؟
کیا ہمارا سرمایہ ،ہماری توانائیاں اور ہماری صلاحیتیں پوری طرح امت مسلمہ کی فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی کے کام آرہی ہیں۔؟صورتحال کی سنگینی اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب یہ تلخ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ بعض اسلامی ممالک کے درمیان کشیدگی اور تنازعات کی فضا موجود ہے۔
قارئین کرام اس بات سے آگاہ ہوجائیں کہ مادی ،سیاسی اور اقتصادی طور پر شکستہ حال قومیں پھر سے فتح مند ہوسکتی ہیں اور اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتی ہیں لیکن ذہنی ، فکری اور روحانی اعتبار سے شکست کھا جانے والی اقوام دولتِ خودی سے محروم ہوکر تاریخ کے ظلمت کدوں میں کھو جاتی ہیں۔میں اپنے اس کالم کے ذریعے اس حقیقت کا اظہار ضروری خیال کرتا ہوں کہ مسائل کی سنگینی ، مصائب کے ہجوم اور مشکلات کی کثرت کے باوجود فرزندانِ اسلام کا مستقبل روزن اور تابناک ہے ۔ ہمارے دل توحید کی دولت سے مالا مال ہیں اور ہماری روح حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لذتوں سے سرشار ہے ۔ ہم امن کے پیامبر اور سلامتی کے سفیر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے نظریے کی حفاظت کے لیے نقد جاں پیش کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں ۔ ہم لامحدود قدرتی وسائل اور انتہائی ذہین،ہمت، شعاراور جفا کش افرادی قوت کے حامل ہیں ۔علم و فن سے محبت ہماری فطرت میں شامل ہے۔ان شا اللہ یہ ناسازگار موسم بہت جلد ختم ہو جائیں گے اور ہمارے بال و پر ایک بار پھر اسی قوت پرواز سے آشنا ہوں گے جس نے صحرائے عرب کے حدی خوانوںکو دنیا کا راہنما بنا دیا تھا ۔ ہمارے دلوں میں آرزو کے چراغ ہمیشہ روشن رہیں گے اور ان شا اللہ وہ دن جلد آئے گا جب آسمان ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی۔
(گوفہ بل۔ کنزر، ٹنگمرگ ۔کشمیر)
[email protected]>