جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے نئی دہلی میں اقتدار سنبھالا ہے، تب سے عوام کے اصلی مسائل و مشکلات اور مطالبات کو حل کرنے کی بجائے ان سے عوامی توجہ ہٹانے کے لئے حربے استعمال کئے گئے اور جموں و کشمیر کو بطور خاص’تجربہ گاہ‘کے طور استعمال کیاگیا۔یوں تو جموں وکشمیر پچھلے سات دہائیوں سے زائد عرصہ سے ’سیاسی تجربہ گاہ‘ہی ہے لیکن پچھلے چند برس کے دوران کئی بڑے تجربے کر کے پورے ملک کی عوام میں یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی جیسے ہم نے خلاء میں ناقابل ِ تسخیر کامیابی حاصل کر کے وہاں نئی دنیا قائم کر لی ہو۔لکھن پور سے لیکر کرگل تک سابق ریاست جموں وکشمیر کی عوام گونا گوں مشکلات کا شکار ہے ، خصوصی درجہ کی تنسیخ کے بعد تعمیر وترقی کا انقلاب بپا کرنے اور دودھ کی نہریں چلانے کے خواب دکھا کر سب کچھ لٹ لیاگیا۔ مشکلات کو حل کرنے کی بجائے یہاں پر مختلف طریقوں سے عوام کو تقسیم کر کے آپسی بھائی چارہ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، مذہبی رواداری کو تار تار کرنے کی مذموم سازشیں ہورہی ہیں۔
اسی کی کڑی کے طور رواں ماہ یعنی ستمبر2020کے پہلے ہفتے میں وزیر اعظم نریندر مودی قیادت والی کابینہ نے ایک مسودہ قانون کو منظوری دی جس کے تحت جموں وکشمیر میں اْردو کے علاوہ انگریزی، ہندی، کشمیری اور ڈوگری کو سرکاری زبانیں قرار دیاگیا جس کو رواں مانسون پارلیمنٹ اجلاس میں منظو ر ی دلوانے کے بعد مہر ثبت کر دی جائے گی۔ اِس طرح ایک سرکاری زبان اْردو کی بجائے اب پانچ سرکاری زبانیں ہوں گی۔ کابینہ کے اِس فیصلے کے بعد سے جموں وکشمیر میںپہاڑی، گوجری اور پنجابی زبانیں بولنے والوں کی طرف سے تحریری، زبانی وعملی احتجاجی سلسلہ جاری ہے ۔ اگر مرکزی حکومت ایک سے زائد سرکاری زبانیں قرار دیکر ترقی کے راستے کھولنا چاہتی ہے تو پھر پانچ کے بجائے آٹھ سے کیا فرق پڑتا بلکہ سرکاری زبانوں کی لمبی فہرست منظور کر کے زیادہ آسانی سے داد بٹوری جاسکتی ہے۔
خیراب اس پر کافی دیر تک سیاست ہوگی ،عوام کی توجہ اصل مدعوں سے ہٹا کر محض فضولیات کی نظر کی جائے گی۔ یہ نیا مسودہ زبانوں کے نام پر جنگ چھیڑنے کی مذموم منصوبہ بند سازش کو قانونی شکل دیناہے۔جن زبانوں کو سرکاری حیثیت ملی، اْن کے چاہنے والوں کو قدم قدم پر اظہار ِ تشکر کرنا ہے جو فہرست میں شامل نہ ہوئیں،اْن کے خیر خواہوں کو پیچھے پیچھے چلایاجائے گا ،کچھ زر خریدوں سے بھڑکائوبیانات دلوا کر آپسی بھائی چائے کو پاش پاش کیاجائے گا۔یہ اہلیان ِ جموں وکشمیر کی عقل وفراست کو پرکھنے کا وقت ہے کہ آیا وہ سب کچھ لٹاکر بھی ہوش میں ہیں یا اسی طرح سازشوں کے جال میں گرفتارہوتے رہیں گے۔ زبانوں کو لیکر ہونے والی سیاست اور تخریب کاری کو نکارنے اور ناکام بنانے کا واحد طریقہ ہے کہ سب کو یک زباں اعلان کرنا چاہئے کہ جن جن زبانوں کو سرکاری حیثیت دی جارہی ہے وہ بھی ہماری زبانیں ہیں اور ہمیں اِن سے بھی وہی محبت ہے جومادری زبان سے ہے اور سبھی زبانوں کی برابر عزت کرتے ہیں۔ ایسی نازک صورتحال میں ہمارا یہ موقف لازم ہے۔
اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ ہر شخص کو اپنی مادری زبان سے محبت فطری عمل ہے۔ زبان افراد کو اْس میں قریب لاتی ہے پھر افراد کی آپسی قربت سماج کو جوڑنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ مادری زبان نے ہی انسان کو معاشرے میں متعارف کروایا۔ پھر وہ زندگی کے سفر کے زینوں کو چڑھنے کی جدوجہد کرنے لگا۔ اس طرح وہ اپنی زندگی کے سفر کو طے کرتے ہوئے منزل تک پہنچا مگر یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ صرف ایک ہی زبان انسان کو اس کی خواہشات کے مطابق اس کی زندگی کے سارے لوازمات پورے کرسکتی ہے۔ یقیناً جواب نفی میں ہے۔ ایسے میں ہر طالبعلم کو چاہئے کہ وہ اپنی ماں بولی زبان کے ساتھ ساتھ دوسری زبانوں کا احترام کرے ،اْن کو سمجھنے بولنے اور اپنانے کے لئے ہمہ تین وقت کوشاں رہے۔
کسی بھی زبان کے ساتھ بخل مہذب انسانی سماج کو زیب نہیں دیتا۔ زبان چاہئے کوئی بھی ہو، انسانوں میں نفرت کو پیار میں، دوری کو نزدیکی میں ، نا آشنائی کو آشنائی میں بدلنے کا وسیلہ ہے۔ گویا زبان انسانیت کو جوڑنے کا آلہ ہے۔ افسوس آج کے ترقی پسند دور میں بھی انسان تنگ نظری میں مبتلا ہوکر زبان کے ساتھ بھی تعصب اور امتیاز ی سلوک رواں رکھے ہوئے ہے۔ اسی تعصب کی بھینٹ فارسی زبان چڑھی اور اْردو لکھنو، دکن، دہلی سے ہجرتے کرتے کرتے سمٹ کر جموں وکشمیر تک آپہنچی اوراب یہاں سے بھی اِسے چلتا کرنے کی ساز ش منظوبہ بند طریقہ سے کی جارہی ہے۔ قارئین حضرات !جو نیا بل منظور کیاجارہا ہے اس کے پیچھے جو مقصد کار فرما ہے اْس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مقصد صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے اردو زبان کو مرحلہ وار ملک بد ر کرنا۔ پہلے ریاستی تشخص ختم کیاگیا۔ دو سوسالہ پرانی ریاست دو پھاڑ کی گئی۔ درجہ گھٹاکر یونین ٹریٹری کر دیاگیا۔ اب ریاست کی ایک صدی پرانی سرکاری زبان ،جس کو 1922میں اْس وقت کے آنجہانی مہاراجہ بہادر نے سرکاری زبان قرار دیا تھا، کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی۔ اب مرکز ڈوگرہ راج کی اِس تاریخی پہچان کو بھی مٹانے کی شروعات کر چکا ہے۔
عوام جموں وکشمیر کے لئے یہ واجب بنتا ہے کہ یک زباں ہوکر مرکزی سرکار کو باور کرائیں کہ وراثت میں ملی ہماری سرکاری زبان اْردو کو قائم رکھا جائے اور عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کی بجائے اِن کو حل کرنے کی کوششیں کی جائیں اور جواب دیاجائے۔عوام حکومت سے جواب کی متلاشی ہے کہ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑجو سرکاری ملازمت پانے کی عمر پار کر چکے ہیں یا اَِس کے نزدیک ہیں، اْن کا اور اْن کے غریب ماں باپ کا کیا قصور۔ مہنگائی پر روک تھام کیوں نہیں… مزدوروں اور عام بیروزگاروں کو روزگار کب ملے گا… رشوت سے عام آدمی کو نجات کب ملے گی… سرحدی مکینوں کو آرام کی نیند سونا کب نصیب ہوگی… لاقانونیت کا بازار کب تک گرم رہے گا… زندانوں کے اسیروں کی زنجیریں کب ٹوٹیں گیں… آخر تعمیر وترقی کا آغاز کب تک… ایک سال سے ٹھپ پروجیکٹوں کے بارے میں آئندہ منصوبہ کیا ہے …؟؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ فہرست طویل ہے۔ عوام اور نمائندگان کے مندرجہ بالا اور ایسے کئی سوالات سے کب تک حکومت راہ ِ فرار اختیار کریگی۔