حمیرا فاروق، آونیرہ
انسانی زندگی کو ہر دور میں نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑا اور یہ سلسلہ تا دم چلتا رہے گا ۔کیونکہ دنیا جس کا مطلب ہی ہے بدلنا یہاں ہر وقت ہر شۓ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہو جاتی ہے ۔جہاں انسان کو غموں نے گھیر لیا ہوگا وہی دوسری طرف خوشیوں کے چرچے اس کی منتظر ہوتی ہے ۔ جہاں وہ اداسی کے لبادے میں ملبوس ہوگا وہاں مسرت کا جام بھی مہیا ہو جاتا ہے ۔اس لیے انسان کو ہر حال میں نادم اور شاکر بندہ ہو کر رہنا چاہیے۔ پھر چاہے وہ غربت کی حالت میں ہو یا شہنشاہی میں ،صحت مند ہو یا مریض۔یہ چیزیں دستور حیات میں شامل ہے ،لہٰذا اس کو دستورِ شیوہ نہ بنائے ۔
انسان کو ہر وقت زندگی کی شکوہ شکایتیں ، اپنی قسمت پر رونا باعث مصیبت بنا کے رکھ دیتا ہے ،وہ انسان ہمیشہ پریشان رہتا ہے۔ دراصل یہ اس کے ضعیف الایمان ہونے کی نشانی ہے ۔ایمان و ایقان اگر اس کے اندر ہوتا تو وہ ہر حال میں راضی ہوتا۔ جو انسان اپنی قسمت پر ہمیشہ لعن و طعن کرتا رہتا ہے پھر اس کے پاس اگرچہ ساری نعمتیں موجود ہو بھی لیکن عادتاًوہ رب کا ناشکرا رہتا ہے ۔ اللہ نے انسانوں کو مشقت کے لئے پیدا کیا ہے ۔ وہ یہاں چین و راحت سے لبریز نہیں رہ سکتا ،یہ پریشانیاں اور سختیاں جھیلنے کی جگہ ہے، کوئی انسان اس کے بغیر رہ نہیں سکتا ۔انسان کو سکھ ہمیشہ رہنے والا نہیں اُتارچڑھاؤ زندگی کا ایک حصّہ ہے جس سے ہر ایک کو گزرنا پڑتا ہے ۔یہاں نہ شہنشاہ کی شہنشاہی رہنے والی ہے اور نہ فقیر کی فقیری۔ یہاں بس بقاء رب کی ذات کو حاصل ہیں ۔وہ ایک ناکارہ اور بے عقل انسان ہے جس نے آج تک اپنے وجود پر غور و فکر نہیں کیا کہ آخر میں میرا وجود بخشنے والا ہے کون ؟مجھے دنیا میں لایا گیا تو کس لیے ؟ میرا وجود تھا ہی نہیں تو مجھے وجود کس نے بخشا ؟ اگر یہ تمام سوالات انسان کے ذہن میں اُبھر آتے تو آج لوگ ہر سمت آفت کے شکار نہ ہوتے ۔ خودداری سے انسان کو معرفت نفس ہو جاتی ہے اور اگر اس کی کمی ہو تو انسان کے اندر رزیلہ خصائل پروان چڑھ جاتی ہیں ۔خوداری ویران بستیوں کو آباد کر دیتی ہے ۔ یہ انسان کو عزت نفس اور دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے پرہیز کرنا سکھاتی ہے ۔ انسان کو مفلوک الحالی سے نکال کر ترقی کی اور رہنمائی کرتی ہے ۔جس کو علامہ اقبال نے نہایت ہی دلکش پیرائے میں بیان فرمایا ۔ وہ اصل میں انسان کو نیابت الٰہی کے منصب پر دیکھنے کے خواہاں تھے ۔ انہوں نے خودداری کے لیے تین چیزیں بتائی، جس میں پہلی چیز اطاعت دوسری ضبط نفس اور نیابت الٰہی قرار دی ۔جب انسان کے اندر یہ تین چیزیں آتی ہیں ۔بالخصوص ضبط نفس جب قابو میں آجائے تو انسان ایک کامیاب بندہ ہو کر زندگی گزار لیتا ہے جہاں بندے کی ہر تمنا پوری ہونے لگتی ہے اور اللہ کو اس بندے کی ہر ادا پسند ہو جاتی ہے، اس کی نظر اللہ کی نظر بن جاتی ہے۔ وہ چیزوں کی ابھی تمنا ہی کر رہا ہوتا ہے تو رب اس پہ کُن کہہ دیتےہیں ۔ جس کو علامہ اقبال نے ایک شعر کے ذریعے بیان فرمایا :
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سی پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
انسان خودی سے انسانیت کے اعلی درجے پر معمور ہو جاتا ہے جہاں اس کو حقوق اللہ حقوق العباد کا لحاظ رہتا ہے۔ اس کا مقصد صرف خود کی تکمیل ہوتی ہے اور موجودہ نقائص کا ازالہ اور ان چیزوں سے دوری جو اس کو راہ حق میں رکاوٹ ، خدا اور اسکے بیچ میں آڑ بن کے آتے ہیں ۔جب انسان اپنی ذات کو دیکھ کر تفکر کی وہ منزل طے کرتا ہے جہاں اس کو اپنے وجود کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے وہاں سے اس کو خالق کائنات سے رابطے شروع ہو جاتے ہیں ۔ اگر خود کو بے لگام چھوڑ دیا تو گمراہوں کی صف میں شمار ہو کر پیوندخاک ہو جائے گا ۔اکثر و بیشتر دیکھا جائے تو نافرمان انسان ہر وقت واے ویلا کرتا رہتا ہے۔برعکس اس کے مومن صبر و استقلال سے کام لیتا ہے اور اس گھڑی کا منتظر رہتا ہے جس کا اللہ نے ان سے عہد کیا ہوا ہے ۔ اگر اس کو ہزاروں نیکیاں کمانے کے بعد اور دعائیں مانگنے کے بعد بھی کسی چیز کی محرومی رہتی تو وہ حق سے منہ نہیں موڑتا بلکہ دل میں یہ یقین کر لیتا ہے کہ رب مجھے الی الخیر لے گا ،میرے لیے کوئی اور راستہ بہتر سے بہترین اللہ نے چنا ہوگا، اس لیے رب مجھے اپنے من پسند چیزوں سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ وہ اللہ پر اپنا ایمان و ایقان کی حدود میں رہتا ہے اور اس کے عہد کی پاسداری کرکے اس مقام پر پہنچ کر جہاں رب کی نظر اس کی نظر ہو جاتی ہے وہ گمان کرتا ہے اور اللہ اس پر عطاؤں کے خزانے نصیب فرماتا ہے ۔ انسان کو خودی پہ تھوڑا سا دھیان دینا چاہیے، وہ انسان جس کو خود کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے، اُس کو رب رحیم سے رشتہ جوڑنا آسان ہو جاتا ہے ورنہ اگر ہم خودی سے محروم رہے تو جانور سے بدتر کہلانے کے مستحق ہے کیونکہ جانوروں کو معلوم ہے کہ ہمیں بنا حساب و کتاب چھوڑ دیا جائے گا اور اس کے بعد ہماری کوئی حیات ثانی نہیں جہاں ہماری جواب دہی ہوگی، دنیا میں اس لیے ان کا کام کھانا پینا اور اپنی نفسیانی خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے ۔ان کو کسی چیز کی احساسِ محرومی ستائے گی نہیں ۔ یہ سب چیزیں اللہ نے انسانوں میں رکھی ہوئی ہیں تاکہ وہ اپنی مرتبے کو سمجھے ۔چونکہ انسان کو اللہ نے عقل و عنایت، فہم و فراست، حکمت و دانائی جیسی نعمتوں سے لبریز رکھا ،تاکہ وہ حق اور ناحق میں تمیز کر سکے، اس کو بھلائی اوربُرائی واضح نظر آئے اور وہ باعزت ہو کر رب کے دربار میں پیش ہو جائے، جہاں فرشتے اس کے استقبال کے لیے منتظر ہو کہ کب یہ نیک و صالح روح ہمارے سامنے تشریف لے جائے ،لیکن جب جانوروں کی طرح ضبط نفس رکھا نہیں تو ہم جنت کے لائق نہیں ۔جب ہم پہلے قدم پہ ہی ڈگمگا گئے تو ہماری آخرت کیسے سنور جائے گی ۔ہمیں رب نے نائب بنا کر دنیا کے امور سنبھالنے اور بہتر بنانے کے لیے وقتاً فوقتاً انبیاء علیہ اسلام بھیجے ، جنہوں نے ہماری رہبری و رہنمائی کی حتیٰ کہ ہمیں کل قیامت کے دن کسی چیز کی حجت تک کی گنجائش نہیں رکھی ،وہ سب بذریعہ انبیاء ہمیں سکھایا گیا جس کی انسانیت کو ضرورت تھی ۔
لہٰذا موقع ہنوز ہے کہ ہم خود کو وقت دیں اور یہ سوچے کہ ہم کس راہ کے مسافر ہیں برعکس اسکے کہ ہم ناشکرہ اورشکوہ کرنے والے بنیں ۔ ہمارے پاس اتنا توشہ ہونا چاہے جو ہمیں ابدی زندگی کے لیے کافی ہو ۔ دنیاوی ناکامیوں پر رونا دھونا ،حسد و بغض ، عداوت و کینوں سے باز رہ کر خود ی پہ دھیان دیں،توہمارا رشتہ خدا سے مضبوط ہو جائے گا ۔
[email protected]