پرویز احمد
سرینگر //شادی کرنے کے بعد ہر جوڑا اولاد کیلئے پر امید رہتا ہے اور ہر والدین کی خواش یہی رہتی ہے کہ انکا بیٹا انکے لئے بوڑھاپے کی لاٹھی بنے۔لیکن اگر یہی اولاد بڑا ہونے کے بعد والدین کیلئے عذاب بن جائے تو دنیا میں اس سے بڑی مصیبت اور اس سے بڑا کوئی تکلیف نہیں ہے۔اولڈ ایج ہومز کا رصور جموں کشمیر کا نہیں رہا ہے بلکہ بیرون ریاست اس طرح کی پناہ گاہیں موجود ہیں لیکن اب انکی ضرورت یہاں بھی حد سے زیادہ محسوس ہونے لگی ہے۔ کشمیر میں بھی اب صورتحال بدل گئی ہے، یہاں ایک اولاد کیا9اولادیں بھی وفا نہیں کرتی ہیں اور وقت آنے پر والدین کو گھر سے باہر کرنے میں کوئی بھی قباحت محسوس نہیںکی جاتی ہے۔ گاندربل کے رہنے والے تقریباً 80سالہ محمد شفیع( نام تبدیل) کی بھی حالت کچھ ایسی ہی ہے۔ محمدشفیع کے9بچے ہیں۔ ان میں سے ایک بیٹا اسکا فوت ہوا ہے۔ابھی اسکے3بیٹے اور 5بیٹیاں ہیں، جن میں سے ایک گھر داماد ہے۔اولڈ ایج ہوم کے باشندے کے پاس 30کنال سے زائد کی ملکیتی اراضی تھی اور وہ ہنستے کھیلتے گھر کا مالک تھا۔ بچے جوں جوں بڑے ہونے لگے تو اس نے انکی شادیاں کیں۔ بیٹیوں کی شادی کیساتھ ساتھ بیٹے بھی شادی شدہ ہوگئے اور ( محمد شفیع) کی زنسدگی اجیرن بنتی گئی۔اپنی ساری بچی کچھی جائیداد تینوں بیٹوں اور 5بیٹیوں میںتقسیم کی ہے اور کود ایک بیٹے کیساتھ رہنے لگا۔
اپنے بچوں کی شادی پر زمین کی فروخت اور ان میں جائیداد تقسیم کرنے کے بعد اسکے پاس کچھ نہیں بچا۔بیٹیاں اپنے گھروں میں رہنے لگیں، بیٹے اپنی بیویوں کیساتھ گھر بسا گئے اور ( محمد شفیع) کو کسی بھی بیٹے یا کسی بھی بہو نے اپنے ساتھ رکھنے میں ترجیح نہیں دی۔کوئی بیٹا کہتا تھا کہ انکے والد کا حصہ فلاں بیٹے کے پاس ہے تو کبھی وہ بیٹا کسی اور بھائی کا نام لے رہا ہے۔اسکی اہلیہ جب فوت ہوئی تو اسکا مزاج تند ہوا۔ مزاج میں تیزی آنے کے بعد اسے گھر میں بوجھ سمجھا گیا اور جب کسی نے اسے نہیں اپنایا تو وہ اولڈ ایج ہوم گاندربل کا باشندہ بن گیا۔انہوں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ اہلیہ کے انتقال کے بعد اس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں رہی اور اس کی وجہ سے اسکا مزاج بھی بد گیا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بیٹے گھر لینے کیلئے آتے ہیں، لیکن اسے وہ سکون میسر نہیں رہتا جسکی است تلاش ہے۔اسکی کی نفسیاتی حالت بھی بہتر نہیں ہے لیکن احاط وقار میں ان کو کھانے پینے، کپڑے، طبی سہولیات اور دیگر چیزیں فراہم کی جاتی ہیں جبکہ تفریح کیلئے مختلف مقامات کی سیر بھی کرائی جاتی ہے۔ احاط وقار گاندربل کے منتظم سمیر اللہ عرف محمد سمی کا کہنا ہے کہ محمد شفیع کو گھر بیجا جاتا ہے لیکن نفسیاتی حالت خراب ہونے کی وجہ سے وہ چند دنوں کے بعد ہی واپس آجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی وہ اپنے گھر جانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے تو اس کو کرایہ یا گاڑی کے ذریعے گھر پہنچایا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ محمد شفیع کی دیکھ بال کیلئے وہ ضلع مجسٹریٹ کے سامنے درخواست داخل کرنے والے ہیں تاکہ سینئر سٹیزنز ایکٹ کے تحت انکے بیٹوں پر یہ لازم بنایا جائے کہ وہ اسکی ماانہ مالی کفالت کا ذمہ اٹھائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں آنے والے عمر رسیدہ افراد کی بدتر صورتحال کی وجہ جائیداد کی تقسیم یابچوں کے حوالے جائیدا د کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ بچوں کیلئے اپنی زندگی قربان کرنے کے بعد وہی بچے تمام جائیداد پر قبضہ کرکے والدین کو سر راہ چھوڑ جاتے ہیں اور محمدشفیع کے معاملے میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔