سرینگر// اسلامی ممالک کا 14واں سربراہی اجلاس مکہ مکرمہ میں او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کی صدارت میں منعقد ہوا، اجلاس کے سائیڈ لائن میں کا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں او آئی سی کے سیکریٹری جنرل، ترکی کے وزیر خارجہ، پاکستان کے وزیر خارجہ، نائب وزیر خارجہ سعودی عربیہ، نائب وزیر خارجہ آزر بائی جان، نائب وزیر خارجہ نائیجریا، او آئی سی کے انسانی حقوق گروپ کے سربراہ، پاکستانی زیر انتظام کشمیرکے صدر اور حریت (گ) چیرمین سید علی گیلانی کے نمائندے سید عبداللہ گیلانی نے خطابات کئے۔ سید عبداللہ گیلانی نے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کے تاریخی حقائق اور جموں کشمیر میں ہورہی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ 70سال سے اقوامِ متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کے باوجود مسئلہ کشمیر ہنوز حل طلب ہے جس کی وجہ سے آگ وآہن اور تباہی وبربادی اور انسانی جانوں کے مسلسل ضیاں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ پچھلے 30سال سے بالخصوص اور گزشتہ70برسوں سے بالعموم جاری ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ مسئلہ نیوکلیائی طاقتوں کے درمیان ایک فلش پوائنٹ کی طرح کسی بھی وقت ایک معمولی چنگاری سے دونوں ممالک ہی نہیں، بلکہ پورا خطہ کیمیائی تصادم کی نذر ہوسکتا ہے۔ حال ہی میں ایسا ہی ایک انسانی المیہ بروقت بین الاقوامی مداخلت سے ہوتے ہوتے ٹل گیا۔انہوں نے کہا کہ اگر وقتی طور جنگ وجدل کے منحوس سائے چھٹ گئے، لیکن اس روز کی اس چپکلش اور ٹکراؤ کی بنیادی وجہ یعنی ’’کشمیر‘‘ پر ابھی بھی کوئی ٹھوس اور حقیقت پسندانہ توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ بین الاقوامی ادارے ہی نہیں، بلکہ مسلم اُمہ کے نمائندہ ادارے بھی خواب غفلت سے بیدار ہوکر اس دیرینہ اور سلگتے ہوئے مسئلہ کی طرف متوجہ ہونے کے لیے آمادہ نظر نہیں آرہے ہیں۔ 57مسلم ممالک پوری دنیا کی آبادی کا ایک تہائی حصہ ہے، لیکن اتنی بڑی آبادی، بے پناہ مسائل اور جغرافیائی اہمیت کے باوجود OIC جیسے قابل اور نمائندہ ادارے مسلم اُمہ کو درپیش دو دیرینہ اور تشویش ناک مسائل ’’کشمیر اور فلسطین‘‘ کے حوالے سے دنیا کو اپنا موثر کردار ادا کرنے کے لیے قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ ہمیں اُن وجوہات پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بھارت ہی تھا جو جموں کشمیر کے مسئلے کو اقوامِ متحدہ میں لے گیا جہاں اس کے پُرامن حل کے لیے درجن بھر قراردادیں آج بھی موجود ہیں، لیکن 70سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھارت نہ صرف اپنے تمام دعوؤں سے مکر گیا، بلکہ اس کی یاددہانی کرنے کی ہر آواز کو فوجی قوت سے دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس کے نتیجے میں اس چھوٹی سی ریاست میں اب تک لاکھوں انسانی جانوں، کھربوں کی جائیداد تلف ہوئی ہے، یہی نہیں بلکہ خواتین کی عصمت ریزی، جبری گمشدگی اور پُرامن احتجاج کرنے کو یا تو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے یا پلٹ گنوں سے اُن کی بصیرت چھین کر انہیں عمر بھر کے لیے ناکارہ بنادیا جاتا ہے۔ حال ہی میں اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی ایک رپورٹ میں بھارت کی طرف سے کشمیر میں ہورہی ظلم وبربریت پر سرزنش کرکے وہاں حقائق جاننے کے لیے اپنا ایک وفد لے کے گیا، لیکن بھارت نے بڑی ڈھٹائی سے UNکی اُس درخواست کو مسترد کردیا۔ حریت راہنما نے مندوبین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آخر انسانی المیہ روکنے اور ان کے اصل وجوہات کو ایڈرس کرنے کے لیے عالمی برادری اور مسلم اداروں کو اور کتنا وقت، کتنا لہو اور کتنی تباہی وبربادی درکار ہوگی جب وہ سنجیدگی سے ان مسائل پر توجہ دینے کی کوئی ٹھوس کوشش کریں گے ؟