رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے ليے بس یہی کافی ہے کہ وہ ہرسُنی سُنائي بات تحقیق کئے بغیر بیان کر دے‘‘۔ اس حدیث مبارکہ کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
Netiquette لفظ انٹرنیٹ صحیح ڈھنگ سے استعمال کرنے کے آداب کا نام ہے۔یہ دو انگریزی لفظوں Network + Etiquette کا مجموعہ ہے۔ جن کے معنی ہیں انٹرنیٹ کے استعمال کے دوران اخلاقیات کو ملحوظ رکھنا ۔چونکہ انفارمیشن ٹیکنولوجی ہماری زندگی میں جز ولاینفک کی صورت اختیار کرچکا ہے ،اس ليے اس میں کچھ اصول و ضوابط مرتب کئے جاتے ہیں، جن اصول و ضوابط پر کاربند رہنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے ۔ چاہے کوئی انٹرنیٹ کو اپنی ذاتی ضروریات کے لئے استعمال کرتا ہو، یا ذريعہ معاش کے سلسلے میں اس سے منسلک ہو ، یا وہ طالب علم انٹرنیٹ کو حصول علم کا ذریعہ بناتا ہو ،تاکہ اس کے غیرذ مہ دارانہ استعمال سےسماج پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو کم کیا جاسکے ۔
ذیل میں کچھ بنیادی آداب کا ذکر کیا جاتا ہے، جن پر عمل پیرا ہوکر انٹرنیٹ پر گزرنے والا ہمارا وقت تعمیری (Productive) بن سکتا ہےاور ہماری عزت اور شہرت پر ان اصولوں کی پابندی سے مثبت اثرات مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات و مراسم خوشگوار اور خوشنما بن سکتے ہیں۔
1۔ سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ اپنے ذریعے لوگو ں کے لئے وہی چيز یں پسند فرمائيں جو اپنے ليے پسند ہوں ۔ یعنی جس سلوک اور تعلق کا ہم خود کو مستحق سمجھتے ہیں وہی سلوک دوسروں کے ليے روا رکھا جائے۔ خاص کر سوشل میڈیا پر اپنی بات رکھنے میں حد سے زیادہ احتیاط برتنی چاہیے۔ کیونکہ اس پر ہر قسم کے سامعین موجود رہتے ہیں ، کم فہم بھی اور پڑھے لکھے بھی ، جانے پہچانے بھی اور انجان لوگ بھی۔ دوسروں کے نام صحیح ڈھنگ سے لیا کریں تاکہ وہ بھی آپکے لیے اچھے ناموں کا انتخاب کریں۔ آپ بدزبانی پر اُتر آئیں گے تو ان کے پاس اس سے زیادہ کڑوے اور زہر یلے الفاظ میسر ہیں۔اس ليے دوسروں کو عزت دیں تاکہ آپ کی اپنی عزت سلامت رہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگوں کا مذاق اڑانا نفرت کو جنم دیتا ہے اور پھر لوگ اسکے عادی بن جاتے ہیں۔ نتیجتاً نفرتیں لوگوں کے مزاج میں اُتر جاتی ہیں۔ جہاں کسی پر تنقید ضروری ہو، وہاں سب سے پہلے اس سے پرائیویٹ میں بات کی جائے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کی بات کو سمجھے، اورمیڈیا پر تنقید کی ضرورت ختم ہو جائے۔ اور اگر عام لوگوں کی اصلاح کے لئے کسی پر تنقید لازم بن جائے تو الفاظ کا چناؤ صحیح انداز میں کیا جائے تاکہ لڑائی جھگڑے کا ماحول نہ بن پائے ۔
2۔ سوشل میڈیا پر اپنی بات رکھنے سے پہلے اس سے لوگوں پر پڑھنے والے منفی یا مثبت اثرات پر ضرور غور کیا جائے۔ یہ بھی دیکھا جائے کہ لوگ آپکی باتوں کا کیا کیا مطلب نکال سکتے ہیں۔ ان کی نفسیا ت کو سامنے رکھ کر ہی ان کے سامنےاپنی بات رکھی جائے ۔مصروفیات بڑھ جانے کی وجہ سے لوگوں کے پاس وقت کا فقدان ہے۔ اسلئے صرف اہم بات مختصر الفاظ میں بیان کی جائے، غیر ضروری لمبے چوڑے مضامین اکثر اُکتاہٹ کا باعث بن جاتے ہیں جن کو لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ان کے شعور اور فہم کا ادراک ضروری ہے تاکہ آپ ان سے ہمکلام ہوکر مطلوبہ نتائج حاصل کر پائیں۔ کثیر تعداد میں آپکی فین فالونگ ہو تو ایسی باتوں سے پرہیز کیجئے ،جن سے ان کے درمیان بھائی چارے کی فضا درہم برہم ہو جائے اور وہ آپکی حمایت یا مخالفت میں ایک دوسرے سے گالم گلوچ پر اتر آئیں۔اس لئے کہ انٹرنیٹ پر یہ تجربہ عام ہے کہ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کی حمایت یا مخالفت پر اتر آتے ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے لڑائی جھگڑے کا ماحول بن جاتا ہے اور اس تخریبی ماحول میں پھر ایسے جذ باتی لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں جو اصل مسئلے سے بے خبر محض جھگڑوں میں اپنی شمولیت ضروری سمجھ کر دوسروں کی عزت ووقار پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ اسطرح سے گالم گلوچ اور بدزبانی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ پھر ان کیفیات کو ختم ہونے میں کافی دن لگ جاتے ہیں۔
3۔ سوشل میڈیا پر غلط معلومات نہ پھیلائیں ۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ جھوٹی خبریں کتنی تیزی سے گردش کرتی ہیں اور انجانے میں لوگ انہیں سچ سمجھ کر پھیلانا ضروری سمجھتے ہیں۔ جسکے نتیجے میں لوگوں کا ایک دوسرے پر بھروسہ اُٹھ جاتا ہے۔آجکل لوگوں کی ایک کثیر تعداد حیرت انگیز مگر جھوٹے اور فرضی واقعات اپنی چینل یا ویب سایٹس پر محض لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں ۔ ایسی چینلز سے دور رہیے کیونکہ یہ محض آپ کا قیمتی وقت ضائع کرتی ہیں ۔ صرف وہی مواد دوسروں سے شئر کرنا چاہيے جسکی صحت پر آپکو بھروسہ ہو، بغیر تحقیق یا حوالےکے سُنی سُنائی باتوں کو آگے پھیلانا بُری عادت ہے۔ جسکی شریعت بھی اجازت نہیں دیتی ۔ اس سے آپکی پہچان متاثر ہو جائے گی اور لوگ آپکی باتوں کو اہمیت دینا چھوڑ دیتے ہیں۔
4۔ انٹرنیٹ پر لوگوں کو طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، خاص کر ان کو جو اس کا استعمال نہیں جانتے یا کم جانتےہیں ۔ دھوکہ دہی ، ہیکنگ ، بلیک میلنگ ، سايبر حملے، نجی معلومات کی چوری اور غلط ہاتھوں تک رسائی، اور اسطرح کے ان گنت خطرات ہمیشہ سر پر منڈلارہے ہوتے ہیں۔بے شمار ویب سايٹس ایسی ہیں جو لوگوں سے حساس معلومات طلب کرتی ہیں، تاکہ ان معلومات کا ناجايز فايدہ اٹھا کر ان کو پریشانیوں میں مبتلا کیا جائے ۔ ایسے تمام خطرات سے اپنے آپ کو بچانا ضروری ہے۔ اسکے لئے انٹرنیٹ کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل کریں۔یہ کس طرح کام کرتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح اس میں تبدیلیا ں رونما ہوتی ہیں۔یہ چیزیں سمجھنی بہت ضروری ہیں۔ کسی پریشانی کے سلسلے میں اس شعبے سے متعلق ماہرین سے مدد لی جائے ۔
5۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں قانون کا احترام اسی طرح ضروری ہے جسطرح حقیقی دنیا میں آپ اس کا احترام کرتے ہیں۔یاد رکھیں انٹرنیٹ پر آپکی موجودگی حقیقی وجود کا ہی تسلسل ہے اور اسمیں آپ برقی آلات سے نہیں بلکہ انسانوں سے معاملات چلاتے ہیں۔جس کا مطلب ہے کہ قانون کا اطلاق برابر اس پر بھی ہوگا۔ اسلئے فراڈ ، دھوکہ دہی، الزام تراشی ، بہتان،بد تمیزی، دھمکیاں ،اور کسی کوبے وجہ بدنام کرنے جیسی حرکات پر آپکی قانونی گرفت ہوسکتی ہے۔اس لئے کہ آپکے ہر عمل کا ریکارڈ یا ثبوت انٹرنیٹ پر محفوظ رہتا ہے۔ ان چیزوں کے لئے انٹرنیٹ کا استعمال نقصان سے خالی نہیں۔ ایک ذمہ دار شہری اپنی سوسائٹی کو مضر اور نقصان دہ عناصر سےہمیشہ محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
6۔انٹرنیٹ افراد اور اداروں کے درمیان رابطہ کا ایک مضبوط جال ہے جو پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے یہ بین الاقوامی ترسیلی نظام ہے ،جس کا استعمال زندگی کے ہر شعبہ میں نیک مقاصد حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔تعلیم و تربیت ، کاری گری ، فن کاری ، کسی بھی شعبے میں عمدہ صلاحیت حاصل کرنے میں یہ بہت ہی کارآمد ثابت ہوسکتا ہے ۔کسی بھی فن کو سیکھنے کے لـئےمتعلقہ مواد تک رسائی مفت اور آسان ہے۔اسکے ساتھ ساتھ دینی خیالات اور نظریات کی تبلیغ کے سلسلے میں یہ بہت موثر اور آسان ذریعہ ہے ،اس کو واسطہ بنا کر لوگوں کو اخلاقیات اور احکامات سکھائے جا سکتے ہیں۔ غرض حصول تعلیم اور تبلیغ دین کے لئے انٹرنیٹ سے کام لینا وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے اور اسکے مثبت نتايج بھی حاصل ہو رہے ہیں۔لیکن جہاں خیر اور نیکی کے کاموں میں یہ فائدہ مند چیز ہےوہیں منجملہ منکرات میں سے ایک منکر یہ بھی ہے کہ اس کو شر اور فساد کی تبلیغ کا ذریعہ بنا دیا جائے۔ جیسا کہ آجکل یہ بےحیائی اور فحش مواد کا مرکز بن چکا ہے ۔ اسلئے وقت کا اہم تقاضا ہے کہ ہم انٹرنیٹ کے استعمال کے سلسلے میں اپنے دین سے رہنمائی حاصل کریں،تاکہ ہمیں دنیا اور آخرت کی فلاح اور کامرانی حاصل ہو جائے ۔
خلاصہ: موجودہ دور میں میڈیا نے کافی ترقی حاصل کر لی ہے۔ ریڈیو ، ٹی وی ، کے بعد اب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دور ہے، جس نے مواصلاتی نظام کو بام عروج پر پہنچادیا ہے اور دنیا سمٹ کر ایک چھوٹی سی بستی بن چکی ہے،جس کا ہر فرد ہر دوسروں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ سب ایجادات فی نفسہ نقصان دہ نہیں ہیں بلکہ ان کا استعمال ان کو خیر یا شر کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ بحیثیت مسلمان قوم ہمیں ان تمام مواصلاتی ذرائع پر اپنی تہذیب و تمدن ، تعلیمات و تفہیمات ، سیر و تاریخ کے واقعات ، سائنسی تحقیقات و ایجادات کے ساتھ ساتھ دیگر پر مقاصد موضوعات پر مشتمل ڈیٹا نشر کرنا چاہيے ۔ جملہ منکرات سے خود بھی بچنا چاہیے اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
(کیلم کولگام،رابطہ۔7889706325)