رئیس احمد کمار
کولگام ضلع کے ایک مشہور گاؤں کیلم سے تعلق رکھنے والے ایس معشوق احمد نے اردو ادب میں اپنا نام ایسا چمکایا ہے کہ دہائیوں سے لکھنے والے ادیب اور شاعر اس ابھرتے ہوے خوبصورت نوجوان قلمکار پر رشک کرنے لگے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قسمت والوں کو ہی ایسا مرتبہ اور وقار حاصل ہوتا ہے لیکن یہاں میں یہ بات وثوق سے کہتا ہوں کہ معشوق صاحب جس لگن اور ولولے سے اردو ادب کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ،جلد ہی انہیں اردو دنیا میں ایک اعلیٰ اور منفرد مقام حاصل ہوگا۔ اردو ادب کی تقریباً ہر ایک صنف پر طبع آزمائی کرنے والے ایس معشوق احمد کی سلیس اور آسان زبان و بیان سے قارئین کی اچھی خاصی تعداد متاثر بھی ہوتی ہے اور داد و تحسین سے بھی معشوق احمد کو نوازتے ہیں۔
معشوق صاحب کی اب تک کئی تصانیف منظر عام پر آئی ہیں جن میں ‘دبستان کشمیر کے درخشاں ستارے’ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کتاب پر وادی اور ملک کے مقتدر ادیب اور لکھاریوں نے اپنے تبصرے تحریر کئے ہیں۔ خاکسار نے بھی اس کتاب پر تبصرہ لکھا ہے۔ اس وقت معشوق صاحب کی جس کتاب پر میں قلم اٹھا رہا ہوں وہ اس کی تازہ شایع شدہ تصنیف ‘کوتاہیاں’ انشائیوں کا مجموعہ ہے جو جی این کے پبلی کیشنز کے ذریعے شایع ہوئی ہے۔ 126صفحات پر مشتمل کوتاہیاں کل اکیس انشائیوں کا مجموعہ ہے۔ اس کا سرورق بہت خوبصورت اور دلکش انداز میں تیار کیا گیا ہے۔ معشوق صاحب نے یہ تحفہ اپنے پیارے والدین کے نام کیا ہے۔ معشوق صاحب خود ‘عرض یوں ہے’ کے عنوان میں فرماتے ہیں کہ کتاب پڑھتے ہوئے آپ کو اکثر مضامین میں مرزا کا کردار نظر آئے گا اور آپ ضرور تذبذب کے شکار ہو سکتے ہیں کہ آخر یہ مرزا ہے کون۔ جواباً معشوق صاحب فرماتے ہیں کہ مرزا ایک بھولا بھالا اور عام سا انسان ہے جس کو زمانے نے نہ ابھرنے دیا ورنہ اس کی باتیں تو اس لائق تھیں کہ وہ کسی کا بھی دل جیت لیں۔ مزید معشوق صاحب کتاب کے عنوان یعنی ‘کوتاہیاں’ پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے یہ عنوان اس لئے چنا کہ اس دور میں وقت نکال کر کچھ لکھنا اور پھر کتابی صورت میں سامنے لانا کوتاہی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ کوتاہی ملے جلے احساسات کی ترجمانی کررہی ہے۔
اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر خورشید احمد ‘ معشوق احمد: ایک سحر بیان انشائیہ نگار ‘ کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں ” ایس معشوق احمد کی کتاب میں آگ ، جلن، خزاں کا پرتو اور ماتمی سماں دیکھنے کو ملتا ہے۔ میں آٹھ سال پہلے بھی حیران تھا آج بھی حیرانی برقرار ہے کہ اس ننھی سی جان کے ہاتھ میں جب قلم آتا ہے تو کس قدر تلخی، طنز اور کڑواہٹ تحریروں میں آتی ہے”۔ مرزا کہتے ہیں اور معشوق سنتے ہیں کے عنوان کے تحت ڈاکٹر فریدہ تبسم صاحبہ لکھتی ہیں ’’جہاں تک معشوق صاحب کے انشائیوں کی بات ہے ،ان میں وہ مرزا کے اقوال کے ذریعے اپنی بات رکھتے ہیں اور بات میں بات پیدا کر قاری کو محظوظ کراتے ہیں۔ معشوق صاحب کی کاوش مبارک باد کی مستحق ہے کہ آپ نے بحیثیت انشائیہ نگار بہترین کوشش کی ہے اور حتی الامکان قاری کو محظوظ کراتے ہوئے غور وفکر کی دعوت دی ہے‘‘۔ صنف انشائیہ کا عاشق ‘معشوق’ کے عنوان کے تحت ڈاکٹر مظفر نازنین صاحبہ رقمطراز ہے ‘کوتاہیاں’میں جو انشائیہ شامل ہیں ان میں رواں اور آسان زبان کا استعمال کیا گیا ہے۔ ان انشائیوں میں طنز کی کڑواہٹ بھی ہے اور مزاح کی مٹھاس بھی۔ اقرا یونس صاحبہ اس کتاب اور مصنف کے بارے میں لکھتی ہیں کہ معشوق احمد کی چند تحریریں پڑھنے کے بعد میں ان کے فن کی معترف ہوگئی ہوں کیونکہ ان کی تحریرات کو پڑھ کر محسوس ہوا کہ موصوف نے مزاح کو معتبر رکھا ہے اور ہنسنے ہنسانے کی خاطر قلم کو آلودہ ہونے سے بچائے رکھا ہے۔
کتاب کے صفحہ نمبر43پر معشوق صاحب نے بہت ہی بہترین انداز میں ایک انشائیہ خوش آمد تحریر کیا ہے۔ آسان اور سلیس زبان میں معشوق صاحب نے خوش آمد کو ایک کارآمد تدبیر سے تعبیر کیا ہے جس سے بڑے بڑے شیر زیر ہوتے ہیں۔ اس انشائیہ کو پڑھ کر قاری یہ بات ضرور محسوس کرتا ہے کہ بدلتے ماحول اور اوقات میں کس قدر خوش آمد ایک اہم ہتھیار ثابت ہوتا ہے۔ صفحہ نمبر 47 پر معشوق صاحب نے نہایت ہی عمدہ انشائیہ ‘دوست، دشمن اور بیوی ‘ ایک منجھے ہوئے انشائیہ نگار کی طرح تحریر فرمایا ہے۔ اس میں طنز اور مزاح دونوں نظر آتے ہیں۔ دوست ، دشمن اور بیوی ایک انسان کی زندگی میں کس قدر اپنا کردار نبھاتے ہیں اور کامیابی اور ناکامی میں بھی یہ تینوں کس طرح ایک اہم رول ادا کرتے ہیں اس انشائیہ میں خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ کتاب کے صفحہ نمبر56 پر ایک اور خوبصورت انشائیہ ‘بس چار دن’ قاری کو پڑھنے کے لئے ملتا ہے۔ فراق گورکھپوری ، فیض احمد فیض اور انور شعور کے اشعاروں سے شروع کیا گیا یہ انشائیہ قاری کو آخر تک باندھ کے رکھ دیتا ہے۔ اس انشایہ سے معشوق صاحب کا انشائیہ لکھنے کا بہترین ہنر نظر آتا ہے اور کس طرح اپنی بات سلیس اور آسان زبان میں قاری کے سامنے رکھتا ہے خوب ظاہر ہوتا ہے۔ اگرچہ اس انشائیہ میں مصنف نے پبلیشر کو ہی اپنا ہدف تنقید بنایا ہے لیکن عام زندگی میں بھی لوگ بس چار دن کے ساتھ خوب کھیلتے ہیں۔ لڑائی یہ انشائیہ کتاب کے صفحہ نمبر72 پر ہے۔ تین صفحات پر مشتمل یہ منفرد اور بہترین انشائیہ معشوق صاحب کے ہنر، زبان و بیان پر مکمل عبور اور ادیبانہ صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے۔ بڑی مہارت کے ساتھ معشوق صاحب نے یہ انشائیہ تحریر کیا ہے۔ انشائیہ میں لڑائیوں کی عام وجوہات ، لڑائیوں کے اقسام مثلاً گھریلو لڑائیوں، پڑوسیوں سے لڑائیوں اور ریاستی و ملکی لڑائیوں وغیرہ پر مکمل بات کی گئی ہے۔ صفحہ نمبر85پر معشوق صاحب نے ایک زبردست انشائیہ ‘پھسلنا’ تحریر کیا ہے۔ اس عام موضوع اور معمولی لفظ پر اتنا لمبا اور خوبصورت انشائیہ معشوق صاحب نے وجود میں لایا ہے کہ اس کا شمار واقعی ملک کے نامور انشائیہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ میں نے بھی سینکڑوں انشائیے اب تک وادی و ملک کے نامی گرامی انشائیہ نگاروں کے پڑھے ہیں لیکن جو مٹھاس اور ہنر معشوق صاحب کو قدرت نے عطا کیا ہے وہ شاید کسی اور کے نصیب ہی میں نہیں ہے۔ صفحہ نمبر89 پر ایک اور انشائیہ ‘انتظار’ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جو نہایت ہی عمدہ الفاظ اور خوبصورت انداز میں تخلیق کیا گیا ہے۔ اس انشائیہ کی شروعات ہی بہترین انداز میں کی گئی ہے۔ معشوق صاحب نے کھل کر انتظار لفظ سے کام لے کر زندگی کے مختلف شعبوں میں انسان کیسے انتظار کر کے اپنا سفر آگے کی طرف بڑھاتا ہے اپنے قلم سے خوب دکھا دیا ہے۔ بچہ ، جوان، بوڑھا، بیمار کس قدر انتظار میں ہی اپنی زندگی آگے بڑھا رہے ہیں اس انشائیہ میں خوب نظر آتا ہے۔’ شادی شدہ اور کنوارے‘ یہ انشائیہ کتاب کے صفحہ نمبر106 پر ہے۔ اس انشائیہ کو پڑھ کر ہر قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ معشوق صاحب نہ صرف ایک مستند انشائیہ نگار ہیں جواپنے بات انشائیوں کے ذریعے قاری کے سامنے رکھنا بخوبی جانتے ہیں بلکہ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ معشوق صاحب کو زندگی کا ایک اچھا تجربہ بھی حاصل ہے کیونکہ خالی ایک ادیب ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ایسی تخلیقات ایک تجربہ کار لکھاری ہی تخلیق کرسکتا ہے۔
معشوق صاحب کی تخلیقات اور انشائیوں کو پڑھ کر میں نے جو خاص بات محسوس کی وہ یہ ہے کہ ان کے انشائیوں میں لطافت ، شگفتگی اور سہل اور آسان انداز بیان ہے۔ وہ نوجوان نسل کے نمائندہ انشائیہ نگار اور ادیب ہیں۔ معشوق صاحب کی تحریرات واقعی ایک قاری کو محظوظ کرانے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ معشوق صاحب وادی اور ملک کے ادبی افق پر ابھرتے ہوئے ستارے کا نام ہے جو اپنا ادبی سفر تھکن کا نام لیے بغیر ہی آگے کی طرف جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ زندگی کی سچائیوں اور حقیقتوں کو معشوق صاحب نے آسان اور سلیس الفاظ کا جامہ پہنا کر قلمبند کیا ہے جو ان کی اہم اور بنیادی خوبی ظاہر کرتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر دماغ کو ایسا سکون اور دل کو ایسی فرحت حاصل ہوتی ہے کہ دل بار بار اس کتاب کو پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔
میں نے اس تحفے کو دل و جان سے پسند کیا ہے کیونکہ نہایت ہی سہل اور آسان زبان میں زندگی کے تلخ تجربات اور حقائق کو معشوق صاحب نے اس کتاب میں قید کر کے قاری کے حوالے کیا ہے۔ اللہ معشوق صاحب کو مزید ترقی سے نوازے اور ان کا قلم اسی رفتار سے اپنا سفر جاری رکھے جس رفتار سے ان کا نام ادبی دنیا میں روشن ہوا ہے۔ مزید میں اردو جاننے اور اردو سے دلچسپی رکھنے والے اشخاص سے یہی التماس کرتا ہوں کہ کوتاہیاں ایک خوبصورت تخلیق ہے ، اس کتاب کو ضرور پڑھیں اور اپنے تاثرات سے اس منجھے ہوئے نوجوان قلمکار کو ضرور نوازیں۔
رابطہ۔قاضی گنڈ کشمیر
ای میل۔[email protected]