شوپیان//امشی پورہ شوپیان فرضی انکائونٹر معاملے میںپولیس نے 2نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے۔ پیر کو گرفتار کئے گئے دونوں نوجوانوں کیخلاف کیس درج کر کے انکی 8روزہ پولیس ریمانڈ حاصل کی گئی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے مبینہ فرضی انکوانٹر کی تحقیقات کو آگے بڑھاتے ہوئے ایسے دو نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے جنہوں نے مبینہ طور پر راجوری کے تین مزدوروں کے بارے میں 3آر آر کو غلط اطلاعات فراہم کی تھیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں نوجوانوں کی گرفتاری پیر کو عمل میں لائی گئی اور منگل کو انہیں چیف جوڈیشل مجسٹریٹ شوپیان کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں پولیس نے دونوں کی 8روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کی ۔ذرائع نے مزید بتایا کہ یہ دونوں افراد فورسز کے لئے کام کرتے ہیں اور انکا تعلق شوپیان کے دو مضافاتی دیہات سے ہے۔ ہیر پورہ شوپیان پولیس سٹیشن میں دونوں کیخلاف کیس زیر نمبر 42/2020 زیر دفعات302,120Bاور7/27آرمز ایکٹ کے تحت درج کیا گیا ہے۔یاد رہے مبینہ فرضی انکاؤنٹر میںمارے جانے والے راجوری کے 3عام نوجوانوں کے معاملے پراپنے ہی اہلکاروں پر فرد جرم عائد کرنے کے بعدفوج نے ممکنہ کورٹ مارشل سے پہلے شواہد جمع کرنے کاآغاز کیا ہے۔کورٹ آف انکوائری ،جس نے اس مہینے کے شروع میں اپنی تحقیقات مکمل کی، کو’ابتدائی حقائق‘ کے شواہد ملے تھے کہ 18 جولائی کو ہونے والے انکاؤنٹر کے دوران فوجیوں نے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) کے تحت اختیارات کو ’عبور کیا‘ ۔عہدیداروں نے بتایا کہ کچھ شہری گواہوں کو بھی طلب کیا جائے گا جس میں وہ لوگ شامل ہیں جو مقامی فوج کیلئے ’مخبر‘ کے طور پر کام کرتے ہیں جنہوں نے ممکنہ طور پر فوج کو غلط اطلاعات فراہم کیں۔عہدیداروں نے بتایا’’ فوج انکوائری کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے پرعزم ہے لیکن ہر زاویے پر تحقیقات کی ضرورت ہے‘‘۔قواعد کے مطابق غلط اقدام کرنے والے فوجی اہلکاروں کے خلاف شواہد کے خلاصے کے دوران قانون کی مختلف دفعات کے تحت کیس کی تفصیلات کی جانچ کی جائے گی جس کے بعد کورٹ مارشل کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔حکام نے بتایا کہ جب بھی قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو فوج شفافیت کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھتی ہے اور اہلکاروں کو سزا دیتی ہے۔18 جولائی کوفوج نے دعویٰ کیا تھا کہ جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں کے امشی پورہ گاؤں میں تین عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔فوج نے سوشل میڈیا رپورٹس کے بعد انکوائری کورٹ کا آغاز کیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ یہ تینوں افراد جموں کے ضلع راجوری سے ہیں اور امشی پورہ میں لاپتہ ہوگئے تھے۔ تحقیقاتی عمل چار ہفتوں میں مکمل ہوا۔راجوری کے تینوں افراد کے اہل خانہ نے بھی پولیس شکایت درج کی تھی۔انکوائری میں کچھ ابتدائی ثبوت سامنے آئے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپریشن کے دوران افسپا کے تحت حاصل کردہ اختیارات حد سے تجاوز کئے گئے اور سپریم کورٹ کے منظور کردہ احکامات کی خلاف ورزی کی گئی ۔بیان میں کہا گیا ہے’’اس کے نتیجے میں، مجاز انضباطی اتھارٹی نے ہدایت کی ہے کہ وہ ان افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت تادیبی کارروائی شروع کرے ‘‘۔جمع کئے گئے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ امشی پورہ میں مارے گئے تین افراد امتیاز احمد، ابرار احمد اور محمد ابرار تھے جو راجوری سے تعلق رکھتے تھے جس کی تصدیق بعد میں ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعہ کی گئی۔اس واقعہ کا سنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے فوج نے مقامی اخبارات میں ایک عام اشتہار شائع کیا تھا، جس میں لوگوں سے اس معاملے کے بارے میں ’قابل اعتماد معلومات‘ پیش کرنے کے لئے کہا گیا تھا اور اسے فوج کے ذریعہ قائم کردہ تفتیشی عدالت میں شیئر کرنے کو کہا گیا تھا۔ راجوری کے علاقے کوٹرنکہ کے دھار ساکری گاؤں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے رشتہ داروں نے 17 جولائی کو ان سے رابطہ ختم ہونے کے بعد مقامی تھانے میں تحریری طور پررپورٹ درج کروائی تھی۔ یہ تینوں مزدوری کرنے کیلئے شوپیاں آئے تھے۔دریں اثناء، پولیس ان تینوں نوجوانوں کی کال کی تفصیلات کی تفتیش کر رہی ہے۔
آپریشن کرنیوالا فوجی یونٹ ہٹایا گیا
شاہد ٹاک
شوپیان // امشی پورہ میں آپریشن کرنے والی فوج کے اُس یونٹ کو مقررہ جگہ سے ہٹا دیا گیا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ 18جولائی کو امشی پورہ میں راجوری کے 3مزدوروں کو ہلاک کرنے اور بعد میں انہیں نامعلوم جنگجو قرار دینے میں جو فوجی یونٹ ملوث تھا اسے ہٹا دیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ آپریشن 62آر آر کیمپ چوگام شوپیان نے کیا تھا۔ جونہی اس مبینہ فرضی جھڑپ کے بارے میں اطلاعات منظر عام پر آئیں تو فوج نے فوری طور پر مذکورہ یونٹ کو چوگام سے ہٹایا اور انکی جگہ پر 44آر آر یونٹ کو تعینات کیا۔معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ یونٹ کو ہیڈکوارٹر کیساتھ منسلک کردیا گیا ہے تاکہ تحقیقات میں کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہ آئے۔