سرینگر // امسال ماہ رمضان بھی مختلف ہے اور اب عید بھی مختلف نظر آئے گی۔ماہ رمضان کے مقدس مہینے میں بازاروں کی چہل پہل غائب رہی، نماز باجماعت ادا ہوسکی نہ نماز تراویح یا پھر نماز جمعہ کے اجتماعات۔حد یہ بھی ہوئی کہ مساجد میں اعتکاف میں بیٹھنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔اب عید کی آمد بھی مختلف ہے اور آنے والے ایام بھی مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔ہر شخص کی تمناہوتی ہے کہ وہ عید کی خوشیاں اپنے گھروالوں کے ساتھ منائے اوراسی خواہش کو پوراکرنے کیلئے ہر ایک شخص اپنے کام کاج سے کچھ دن کی چھٹیاں لیکر اپنے عزیر و اقارب سے ملنے گھر پہنچتاہے لیکن اس بار کورونا وائرس کی وجہ سے صورتحال مختلف ہے ۔ کوئی بیرون جموں وکشمیر درماندہ ہے، تو کوئی بیرون ملک پھنساہواہے، کوئی واپس آکر بھی گھروالوں سے دور قید تنہائی یعنی قرنطین میں ہے توکوئی ایک ضلع سے دوسرے ضلع جانے کیلئے لاک ڈائون کھلنے کا انتظارکررہاہے،ایسے میں عید کی خوشیاں ماندپڑتی نظر آرہی ہیں اور نہ صرف درماندہ افراد بلکہ ان کے گھر والے بھی بے آس بیٹھے ہیں۔عید مسلمانوں کیلئے سب سے بڑا تہوار ہوتا ہے اس دوران ہر ایک کی ترجیجی یہ رہتی ہے تو وہ گھر پہنچے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ یہ تہوار منائے ، لیکن کورونا وائرس کی وبا کے چلتے مسلسل لاک ڈائون کے باعث ہزاروں کی تعداد میں لوگ یہ عید ایک ساتھ اپنے اہل وعیال کے ساتھ نہیں منا پائیں گے ۔ کووڈ19کے بیچ جہاں لازمی خدمات انجام دینے والے کئی ایک ملازمین ڈیوٹیوں پر مامور ہیں، وہیں سینکڑوں عام شہری مزدور اور طلاب بھی عید پر گھر وں تک نہیں پہنچ سکے ہیں ۔جموں وکشمیر حکام نے جہاںہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو ٹرینوں ، بسوں اور جہازوں کے ذریعے بیرون ریاستوں سے وادی پہنچا یا ہے وہیں ابھی ہزاروں کی تعداد میں مزدور طلاب اور ملازمین بیرون ممالک اور بیرون ریاست پھنسے ہوئے ہیں۔ جن لوگوں کو سرکار نے باہر سے یہاں پہنچایا ، ان میں سے بھی ایک خاصی تعداد قرنطین سنٹروں میں بند ہے، جبکہ حکام بھی پریشان ہے کہ ایسے لوگوں کو گھروں تک کیسے پہنچایا جائے۔بیرون ریاستوں سے آنے والے طلاب، مزدوروں اور دیگر لوگوں کیلئے حکام نے سرینگر میں 100کے قریب ہوٹلوں کو حاصل کر کے ان کو قرنطین مراکز بنایا ہے ۔حکام کا کہنا ہے کہ ٹسٹ کئے بغیر وہ کسی بھی شخص کو اپنے متعلقہ اضلاع تک جانے کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ وہ کسی مصیبت کیلئے تیار نہیں ہیں ۔جموں میں پھنسے راجوری ، پونچھ ، ڈوڈہ ، کشتواڑ ،رام بن کے لوگوں کو عید پر گھر جانے کیلئے ٹرانسپورٹ ہی دستیاب نہیں ہے ،جبکہ بندشیں بھی ان پر حاوی ہو رہی ہیں ۔دہلی کے کرول باغ سے ایک نوجوان عمر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’گھر جانے کیلئے اس نے ہر ممکن جگہ پر اپنی رجسٹریشن کرائی ہے اور اس سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اس کو بہت جلد وادی پہنچایا جائے گا ،لیکن بدقسمتی کہ پھر لاک ڈاون کا اعلان کیا گیا اور اس کی گھر واپسی ممکن نہیں بن سکی ۔ ایک اور نوجوان انظر پیرنے کہا کہ دہلی میں ان کے پاس کھانے پینے کیلئے کچھ نہیں ہے ۔اس کا کہنا ہے کہ وہ دہلی میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک نجی فیکٹری میں کام انجام دیتا تھا اور عید پر ہر سال گھر جاتا تھا لیکن اس عید کو وہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی گھر نہیں جا سکتا ہے کیونکہ گھر جانے کیلئے انہیں کوئی ذریعہ نہیں مل پا رہا ہے ۔اڑیشہ میں درماندہ کشمیری پھیری والے بھی گھر جانے کیلئے بے تاب ہیں ۔دارلعلوم دیو بند سے کرناہ کے ایک نوجوان اشفاق احمد نے کہا ’’سرکار ایسے طلاب کی گھر واپسی کا بندوبست کر رہی ہے جو دنیاوی تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن ہمارا کیا ہو گا جو اسلامی تعلیم پڑھ رہے ہیں۔ ۔جھارکھنڈ میں کرناہ کی ماں بیٹی بھی گھر آنے کی طلبگار ہیں ۔گلشن نامی 22سالہ لڑکی ہر دن سماجی رابطہ گاہوں پر گھر جانے کیلئے کبھی ویڈیو کے ذریعے تو کبھی لکھ کر حکام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا رہی ہے۔سعودی عرب کی راجدھانی ریاض میں اس وقت کشمیر کے 4سو نوجوان مختلف کمپنیوں میں کام کر رہے ہیں اور یہ نوجوان ہر سال عید پر چھٹی لیکر گھر آتے تھے لیکن اس بار وہ بھی وہاں ہی درماندہ ہیں ۔حکام کا کہنا ہے کہ درماندہ مسافروں کی گھر واپسی کیلئے بندوبست کیا جا رہا ہے اور ابھی تک 30ہزار سے زیادہ جموں وکشمیر کے افراد کو کشمیر پہنچایا گیا ہے ۔
امسال کی عید مختلف ہوگی!
