۔ 30جون سے شروع ہونے والی امرناتھ یاترا کیلئے رجسٹریشن کا عمل گزشتہ روز سے شروع ہوچکا ہے اورامید کی جارہی ہے کہ اس سال جموںوکشمیر کی تاریخ کی سب سے بڑا یاترا ہوگی اور 6سے8لاکھ یاتری پوتر گپھا کے درشن کیلئے آئیں گے۔اس ضمن میں پیر کوسرینگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی وزارت اطلاعادت و نشریات کے سیکریٹری اپوروا چندرا نے بھی ایسی ہی امید ظاہر کی اور کہا کہ یاترا کیلئے انتظامات مکمل کئے گئے ہیں اور سیکورٹی کے حوالے سے فول پروف انتظامات ہوچکے ہیں۔ان کا کہناتھا کہ کہ یاترا کے لئے جو انتظامات کیے جارہے ہیں وہ گزشتہ برسوں کے مقابلے دوگنا ہونگے اور پوری انتظامیہ اس سال اتنی بڑی تعداد میں یاتریوں کے استقبال کے لئے تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر میں سیاحوں کی آمد مقامی معیشت کے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ کوئی بھی سیاحوں کی آمد سے شکار والا، ٹٹو والا، ٹیکسی، ڈرائیور اور دیگر متعلقین فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
کورونا کی وجہ سے دو سال کے وقفہ کے بعد امرناتھ یاترا کیلئے رجسٹریشن عمل کا آغاز ایک اچھا شگون ہے کیونکہ گزشتہ دو برسوں میں کورونا کی وجہ سے یہ یاترا ہو ہی نہیں پائی جس کا خمیازہ کشمیری معیشت کو بھی بھگتنا پڑا اور سیاحت نہ ہونے کی وجہ سے معیشت کے تمام کل پرزے ڈھیلے پڑ چکے تھے تاہم اس سال جس طرح پہلے روز سے سیاحتی شعبہ سے زور پکڑا ہوا ہے اور اب تک لاکھوں سیاح پہلے ہی وارد کشمیر ہوچکے ہیں تو ایسے میں اگر امرناتھ یاترا متعین شیڈول کے مطابق مکمل ہوجاتی ہے تو کشمیر آنے والے سیاحوں کی تعدادمیں مزید8لاکھ کا اضافہ ہے ۔کون نہیں جانتا کہ جو یاتری گپھا کے درشن کیلئے آتا ہے ،وہ کشمیر میں پھر کچھ دن گزار کے ہی واپس جاتا ہے اور اس دوران وہ کشمیر کے صحت افزاء مقامات سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے ۔اس کا مطلب یہ کہ ہے کہ جتنی زیادہ یاتریوں کی نقل و حمل ہوگی ،اُتناہی کشمیر کے سیاحتی مقامات پر بھیڑ رہے گی اور جتنا بھیڑ رہے گی ،اُتنا فائدہ ہوگا کیونکہ معیشت کا پہیہ چلتا رہے گا۔
جہاں تک امر ناتھ یاترا اور اس کے انتظام و انصرام کا تعلق ہے تو بلا شبہ سرکاری سطح پر انتظامات کئے گئے ہیں تاہم کون یہ بھول سکتا ہے کہ یہ یاترا کشمیر میں مذہبی بھائی چارہ کی زندہ علامت رہی ہے اور ماضی قریب تک امرناتھ شرائن بورڈ کے قیام سے قبل مقامی مسلم آبادی کے عملی تعاون سے ہی یہ یاترا ممکن ہوپارہی تھی۔کشمیری عوام نے روز اول سے اس یاترا کا خیر مقدم کیاہے اور حق بات تو یہ ہے یہ گپھا دریافت کرنے والے بھی کشمیری مسلمان رہے ہیںجس کے بعد پہلگام کا وہ ملک خاندان برسوں تک اس یاترا کی نگرانی پر مامور ہوا کرتا تھا۔اب جبکہ انتظامات کو معیاری بنانے کیلئے باضابطہ شرائن بورڈ بن چکا ہے تاہم یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ آج بھی یہ یاترا مقامی مسلم برادری کے عملی تعاون سے ہی ممکن ہوپارہی ہے اور پہلگام و بال تل کے بیس کیمپوں سے لیکر گپھا تک جس طرح کشمیر کے مسلمان یاتریوں کی خدمت میں لگے رہتے ہیں ،وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کشمیر میں آج بھی مذہبی بھائی چارہ قائم ہے اور لاکھ کوششوں کے باوجود بھی مذہبی منافرت یہاں پنپ نہیں سکی۔
دراصل کشمیر کا صوفی کلچر یہاں کے ہر فرد کے رگ و پے میں ہے اور کشمیر کا شاید ہی کوئی باشندہ مذہبی منافرت پھیلانے کا مرتکب ہوسکتا ہے کیونکہ ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ دنیا کی سار ی مخلوق ایک خالق کی بنائی ہوئی ہے جہاںہم سب کو پیار و محبت کے ساتھ مل کر رہنا ہے اور اس دنیا میں کئے گئے اعمال کی سزاو جزا دوسری دنیا میںملنی ہے ۔یہ وہ نظریہ ہے جو کشمیر کو مذہبی بھائی چارہ کی آماجگاہ بنا چکا ہے اور آج بھی یہاں کسی طرح کا کوئی خلفشار نہیں ہے ۔
بدلتے حالات میں اُن چند مٹھی بھر لوگوں کو بھی سمجھنا چاہئے کہ نفرت کی دیواریں حائل کرنے سے کچھ نہیں ہوگا جو ابھی بھی اپنا الو سیدھا کرنے کیلئے یہاں مذہب کا چورن بیچ رہے ہیں اور مختلف طبقوںکے درمیان ایسی دراڑیں ڈالنا چاہتے ہیں جن کو مٹانا مشکل ہو۔ایسے لوگ سمجھ جائیں کہ ان کے حربے اب کامیاب نہیں ہونے والے ہیں اور کشمیر روایتی مخلوط تمدنی روایات کی علم کو فروزاں رکھا گا اور اس ضمن میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہیںکیاجائے گا۔