مفکرین و محققین نے امت کی زبوں حالی اور تنزل و انحطاط کی متعدد وجوہات بیان کی ہیں۔ من جملہ ان کے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امت اپنے درخشان و تابان ماضی اور اکابرین و اسلاف کو فراموش کرچکی ہیں، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم اغیار و باقی اقوام عالم اور ان کی خودساختہ تہذیب و کلچر سے متاثر و مسحور ہوچکے ہیں۔ یہ بات دنیا کے تمام حکماء کے نزدیک مسلّم ہے کہ جب انسان کسی دوسری قوم و تہذیب سے متاثر ہوتا ہے تو وہ خود اپنے تشخص وپہچان اور تمدن سے ہاتھ کھو بیٹھتا ہے۔ چونکہ امت مسلمہ کی حالت کافی حد تک ایسی ہی ہو چکی ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ آج امت بالخصوص نوجوانان ملت اسلامیہ کو اپنے اسلاف کی رفعتوں و بلندیوں اور ان کے علمی و فکری کمالات و عجائبات نیز ان کی پاکیزہ و روح پرور زندگیوں سے متعارف کیا جائے تاکہ امت نئی تہذیب کے دلدل و مادہ پرستانہ طرز زندگی سے اپنے آپ کو نکال کر، اپنے اسلاف کے نقش قدم پرچل سکیں۔ اس کے نتیجہ میں امت دارین کی فوز و فلاح اور اصلاح و بہتری سے بہرہ یاب ہوجائے۔ انہی اصحاب علم و عزیمت کے سلسلہ کی ایک کڑی ، خاتم الفقہا ء و المحدثین امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری ؒ ہے۔
ہماری وادی کشمیر کے اس عظیم انسان کی پیدائش سن ۱۸۷۵ء علاقہ لولاب قریہ دودون میں معظم شاہ کے گھرانے میں ہوئی۔ چونکہ والد صاحب خود ایک عالم و صاحب طریقت شخصیت کے مالک تھے تو انہوں نے اپنے اس بامسعود فرزند کی تعلیم کی ابتدا گھرسے ہی شروع فرمائی۔ محض سات سال کی عمر میں قرآن پاک کے ساتھ ساتھ فارسی کی بعض کتب پڑھ چکے تھے۔ اس چھوٹی عمر میں جب آپ اپنے والد سے’’ مختصر القدوری‘‘ پڑھ رہے تھے تو ان کا بیان ہے:
انور شاہ کبھی ایسے سوالات کرتے جن کا جواب اہم فقہی کتابوں سے مراجعت کے بغیر ممکن نہیں تھاــ۔ (نقش دوام ص ۲۷)
دس بارہ سال کی عمر میں وطن مالوف کو خیر باد کہہ کر ہزارہ جو اس دور میں علم کا مرکز تھا، چل پڑے۔ تین سال وہاں علم حاصل کرکے مزید علمی پیاس بجھانے کے لئے دیوبند کا رخت سفر باندھا۔ کچھ دن شہرکی مسجد قاضی میں بھوکا رہ کر متولی مسجد قاضی احمد حسین کے توسط سے شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ کی خدمت میں پہنچے اور شیخ سے علمی استفادہ کی درخواست کی۔ شیخ نے بھی پہلی ہی نظر میں اس نوجوان کی طلب و علمی ولولہ اور ذہانت و فطانت کو بانپ لیا اور آپ کو اپنے مبارک تلمذ کے شرف سے مشرف فرمایا۔ فراغت کے بعد آپ پنے ایک ساتھی مولانا امین الدین کی فرمائش پر مدرسہ امینیہ دہلی میں بحیثیت استاد پڑھانے لگے۔ چند سال کے بعد آپ اپنے وطن کشمیر وارد ہوئے اور خاندان خواجہ عبد الصمد ککرو کے اصرار پر ضلع بارہ مولہ میں مدرسہ فیض عام کی بنیاد ڈالی۔ مگر صد افسوس و ہماری بدقسمتی کہ ہم اس امام وقت کی قدر نہ کر سکیں اور محض تین سال یہاں ٹھہر کر مجبورًا آپ واپس ہندوستان تشریف لے گئے ۔
اپنے ایک مکتوب جو اآپ نے ان دنوں کشمیر سے دہلی ِ، مولوی امین الدین کو ارسال فرمایا، میں حضرت لکھتے ہیں؛
حقیر کو یہاں سے دل برداشتگی کا سبب یہ ہے کہ یہاں کی آبادی کا طرز اور ان کی بد معاملگی کا احساس شدید ہو رہا ہے، ایسا مجھے قیا م ہندوستان میں کبھی نہیں ہوا۔ (نقش دوام ص ۲۶)ـ دریں اثناء آپ حج بیت اللہ تشریف لے گئے اور وہاں نوادر کتب اور شیخ حسن طرابلسی سے استفادہ فرمایا۔ شیخ طرابلسی نے اپنی تحریرات میں آپ کی ذکاوت و ذہانت اور وسعت مطالعہ کی بڑی تعریف فرمائی ہے کشمیر سے جب آپ ہندستان روانہ ہوئے تو شیخ الہندنے،جو آپ کی غیر معمولی صلاحیتوں سے بخوبی واقف تھے، آپ کو دارلعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دینے پر مامور فرمایا۔ پھر جب شیخ الہند ؒ کو انگریزں نے پابند سلاسل کیا ،تو جاتے ہوئے استاد نے اپنے اس باکمال شاگرد کو اپنی مسند حدیث پر فائز کیا۔ پھر ہندستان کیا پوری اسلامی دنیا میں آپ کے تبحّرعلم، وسعت نظر ، وسیع و عریض مطالعہ اور لامثال قوت یاداشت کے ڈھنکے بجنے شروع ہوئے۔ رفتہ رفتہ آپ کی علمی شہرت پوری دنیا میں پھیل گئی۔آپ کتابوں کا بہت ادب فرماتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے خود فرمایا :میں نے سات سال کی عمر کے بعد دین کی کسی کتاب کو وضو کے بغیرہاتھ نہیں لگایا۔کتاب کو مطالعہ میں کبھی اپنے تابع نہیں کیا جس نشست پر بیٹھ کر کتاب کا مطالعہ کرتا ہوں اگر حاشیہ دوسری جانب ہوتا ہے تو کتاب کو گردش دے کر حاشیہ اپنے سامنے کرنے کی کوشش نہیں کی کتاب کی ہیئت بدلے بغیر خود اپنی نشست بدل کر حاشیہ کی جانب آبیٹھتا ہوںـ۔(ایضاً ص۱۰۸)
ایک دفعہ فرمایا: میں ہر وقت فکر علم میں مستغرق رہتا ہوں بجز ان اوقات کے جب نیند کا شدید غلبہ ہو۔ (ایضاً ص ۱۱۲)آپ جامع العلوم و فنون شخصیت کے مالک تھے۔ نہ صرف دینی و متداولہ علم، بلکہ عصری علوم پر بھی وسیع نظر رکھتے تھے۔ رمل و نجوم، طب،تاریخ و جغرافیہ،معاشیات،قدیم فلسفہ و جدید سائنس ان تمام علم و فنون پر عبور رکھتے تھے۔
شیخ الاسلام مصطفی صبر ی نے جب ضرب الخاتم و مرقاۃ الطارم (حضرت شاہ صاحب ؒ کی Metaphysics پر دو رسالے) کا مطالعہ فرمایا، تو شیخ کے تاثرات یہ تھے: میں مصنف کی دقتِ نظری سے متحیر ہوںاور اس سے کہ انہیں ان علوم میں کیسی حیرت انگیز بصیرت حاصل ہے۔ مسائل کلامی میں میری خود کچھ تحقیقات ہیںجن کے بارہ میں میرا یہ خیال تھا کہ مجھ سے پہلے کسی عالم کا ذہن اس طرف متوجہ نہیں ہوالیکن ان دونوں رسالوں کے مطالعہ کے بعد میں دیکھ رہا ہوں کہ شیخ انور بہت پہلے ان حقائق پر مطلع ہوئے ہیں۔ میں ان مختصر تالیفات کو صدر شیرازی کی طویل و عریض اسفار ِ اربعہ پر بھی ترجیح دیتا ہوں۔ (ایضاً ص ۳۲۴)
آپ ؒ خود فرماتے تھے کہ؛
شیخ بو علی سینا کو ارسطو کا فلسفہ کل ایک واسطہ سے پہنچا ہے جب کہ میں نے اسے تین واسطوں سے حاصل کیا ہے۔ (ایضاً ص ۱۱۵)
کبھی فرمایا کرتے تھے کہ دو لنگڑے بزرگوں (زمخشریؒ اور جرجانی ؒ) نے علم بلاغت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے حالانکہ بلاغت کے بہت سارے ابواب ایسے ہیں جن کی طرف ان کی نگاہ بھی نہیں گئی۔ بایں ہمہ آپ نے زہد و قناعت ، عجز و انکساری ، سادگی و شرافت اور روحانیت کی رسی کو ہمیشہ مضبوطی سے تھامے رکھا۔ غیر مسلم آپ کے چہرے مبارک کو دیکھ کر ایمان لے آتے تھے۔ عیسائی پادری جب مناظرہ میں آپ کو دیکھتے تو جھٹ سے آپ کو بوسہ دیتے اور فرماتے کہ اگر اسلام بصورت مجسم ہوتا ، تو انور شاہ کی شکل میں ہوتا۔ مولانا محمد انوری اپنی تالیف ـ "کمالات انوری" میں لکھتے ہیں :
ایک بار صبح کا اُجالا پھیلنے سے اآپ وزیر اآباد کے ا سٹیشن پر گاڑی کے انتظار میں تشریف رکھتے تھے۔ تلامذہ اورمعتقدین کا ہجوم اردگرد جمع تھا۔ہندو اسٹیشن ماسٹرہاتھ میں بڑا لیمپ لئے ہوئے ادہر سے گذرا۔ حضرت پر نظر پڑی تو رک گیا اورغور سے دیکھتا رہا ۔پھر بولا کہ جس مذہب کا یہ عالم ہے وہ مذہب جھوٹا نہیںہوسکتا ۔ حضرت مرحوم ہی کے ہاتھ پر کفر سے توبہ کی اور ایمان کی دولت سے سرفراز ہوا۔ اسی طرح مولانا سید احمد رضا بجنوریؒ رقمطراز ہیں :
جنوری ۱۹۲۷ء میںحضرت شاہ صاحب ؒ کو ایک کام کی غرض سے ضلع میانوالی جانا ہوا۔ اسٹیشن پر انسانوں کا سمندر موجیں مار رہا تھا۔ زائرین ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ جلسہ گاہ میں پہنچے ایک ہندو نے اپنے کوٹھے کی چھت پرسے حضرت کو دیکھ لیا ، فوراً کود کر زمین پر آیا، مجمع کو چیرکر حضرت ؒ کے پاؤں میں گر پڑا کہ یہ بزرگ مسلمانوں کے پیغمبر کا نمونہ ہیں، یہ کہا اور ایمان لے آیا۔ ( ملفوظات محدث کشمیری ص ۴۰۱ )
مولانا سید احمد رضا بجنوری ؒ کہتے ہیں کہ ایسے واقعات حضرت کی حیات مبارکہ میں کثیر ہیں۔
شاگردان آپ کو چلتا پھرتا کتب خانہ کہا کرتے تھے۔ قوت یاداشت کا یہ عالم تھا کہ فرماتے کہ جو کتاب ایک دفعہ سرسری طور پر دیکھتا ہوں تقریبًا ۳۵ سال اس کو پھر سے دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ مقدمۂ بہاولپور کے موقع پر جب حضرت شاہ صاحب ؒ نے فرمایا کہ جو چیز دین میں تواتر سے ثابت ہو، اس کا منکر کافر ہے ، تو فریق ثانی کے وکیل نے کہاکہ صاحبِ فواتح الرحموت نے لکھا ہے کہ امام رازی ؒ نے تواتر معنوی کا انکار کیا ہے۔ تو مجمع میں بڑے بڑے علماء پریشان ہوئے اور سب پر سکتہ چھا گیا۔مولانا محمد انوری جو اس واقعے کے وقت موجود تھے ، فرماتے ہیں : لیکن اسی حیرانی میں حضرت شاہ صاحب ؒ کی آواز گونجی۔ جج صاحب ! لکھئے، میں نے بتیس ؍۳۲ سال ہوئے یہ کتاب دیکھی تھی ، اب ہمارے پاس یہ کتاب نہیں ہے۔امام رازی ؒ دراصل یہ فرماتے ہیں کہ حدیث لاتجمع امّتی علی الضّلالۃ تواتر معنوی کےرتبے کو نہیں پہنچی،لہٰذا انہوں نے اس حدیث کے متواتر معنوی ہونے کا انکار فرمایا ہے نہ کہ تواتر معنوی کے حجت ہونے کا۔ ان صاحب نے حوالہ پیش کرنے میں دھوکے سے کام لیا ہے۔ ان سے کہو کہ عبارت پڑھیں، ورنہ میں ان سے کتاب لے کر عبارت پڑھتا ہوں۔ چنانچہ ان صاحب نے عبارت پڑھی۔ واقعی اس کامفہوم وہی تھا جو حضرت شاہ صاحب ؒ نے بیان فرمایا۔ ( اکابر دیوبند کیا تھے ص ۹۳ از مفتی تقی عثمانی )
آپ کے علمی شغف و مطالعہ کے طریقے کے بارہ میں آپ کے شاگرد رشید مولانا محمد یوسف بنوری ؒ ـ " نفحۃ العنبر فی ھدی شیخ انور"ـمیں لکھتے ہیں:عام طو ر پر اکثر علماء اسی وقت کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں جب کسی خاص مسئلہ میں متعلقہ کتابوں کی طرف مراجعت کی ضرورت پڑجائے، تاہم شیخ کا طریقہ کار اس سے یکثر مختلف تھا۔ مطالعہ کے بارہ میں ان کا اصول یہ تھا کہ جب کوئی کتاب ان کے ہاتھ لگ جاتی، چاہے وہ کتاب مخطوطہ کی شکل میں ہو یا مطبوعہ ، سقیم ہو یا سلیم ، کسی بھی علمی موضوع سے متعلق ہو، آپ وہ اٹھاتے اور اول تا آخر پوری کی پوری پڑھتے۔۔ مطالعہ میں محنت کی شدید مشقتیں اٹھائیں حتیٰ کہ اپنے آپ کو تھکا کر رکھ دیا۔ آپ کی زندگی کی جانے کتنی ہی راتیں ایسی گزریں کہ ان میں پہلو بستر سے نا آشنا اور جُدا رہا۔ـ (بحوالہ متاع وقت اور کاروانِ علم ص ۲۱۵ ابن الحسن عباسی)
شیخ التفسیر مولانا ادریس کاندہلوی ؒ جو خود ایک محدث و مفسّر اور ایک بلند پایہ محقق و مصنف تھے ، فرماتے ہیں :آخر کی پانچ صدیوں کا تمام علم یکجا کرلیا جائے تو انور شاہ کے علم کی زکوۃ بھی نہیں ہوتی۔ ( ملفوظات محدث کشمیری ص ۲۸) حضرت ؒ کی وفات پر شیخ الاسلام مولاناحسین احمد مدنی ؒ نے اشک بار آنکھوں سے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا:بلا شبہ حضرت شاہ صاحب کی وفات سے علماء و طلباء یتیم ہوگئے۔فضل و کمال، تبحر علمی، وسعت معلومات اور قوت حافظہ میں آپ کی نظیر نہیں تھی۔میں نےہندستان اور عالم اسلام کے نامور علماء کو دیکھا اوران سے ملاقات کی ہے لیکن علامہ کشمیری کی نظیر کہیں نہیں پائی۔ (متاع وقت اور کاروانِ علم ص ۲۱۲ ابن الحسن عباسی)
شیخ الاسلام شیخ زاہد الکوثری ؒ جیسے عبقری فقیہ و نابغہ روزگار محدث نے علامہ کشمیری ؒ کی محیر العقول صلاحیتوں کو جابجا اپنی تصانیف میں سراہا ہے۔ دیکھو مقالات کوثری ۔شیخ زاید الکوثری ؒ علامہ کشمیری ؒ کے بارہ میں فرماتے تھے کہ صاحب فتح القدیر حافظ ابن ہمام ؒ کے بعد ایسی دیدہ ور اور اسلامی ذخیرہ سے نادر استنباط کرنے والی شخصیت پھر نہ اٹھی۔
حضرت ؒ کے جانشین مولانا محمد یوسف بنوری کے شاگرد رشید مفتی محمد زرولی خان صاحب لکھتے ہیں:سلطنت عثمانیہ ترکیہ کے سابق شیخ الاسلام شیخ مصطفی صبری ؒ نے اپنی کتاب موقف العقل و العلم والعلماء من رب العالمین کی چاروں جلدوں میں آپ ؒ کا ذکر المحدث الکبیر فی الہند کے عنوان سے کیا ہے۔ انہی کے ہم عصرمشہور و نظار فقیہ شیخ بخیت ؒ نے آپ ؒ کو اپنے زمانے کا امام اور اسلامی علوم پر دستاویز کے درجہ میں تسلیم کیا ہے۔ الازہر کے اڈیٹر شیخ رشید علی رضا مصری نے مجلہ المنار میں آپ ؒ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ ؒ بعض علوم میں سلف سے متقدم ہیںیعنی ان پر فوقیت رکھتے ہیں۔ (مقدمہ انوار انوری از مفتی محمد زرولی خان )
انتقال کے دوسرے روز لاہور میں تعزیتی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال ؒ نے اپنے اس مشہور شعر سے تاثرات کا اظہار شروع کیا ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
پھر ڈاکٹر اقبال ؒ نے فرمایا :
اسلام کی آخری چانچ سو سالہ تاریخ مولانا انور شاہ کشمیری کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ایسا بلند پایہ عالم و فاضل جلیل اب پیدا نہ ہوگا۔ وہ صرف جامع العلوم قسم کی ایک شخصیت ہی کے مالک نہیں تھے بلکہ عصر حاضر کے دینی تقاضوں پر بھی ان کی پوری نظر تھی۔(متاع وقت اور کاروانِ علم ص ۲۱۲ ابن الحسن عباسی)حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ سے جب کسی نے کہا کہ ایک عیسائی فلسفی نے لکھا ہے کہ اسلام کی حقانیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ غزالی جیسا صاحب عقل و محقق اسلام کو حق سمجھتا ہے۔ تو یہ سن کر حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا :میں کہتا ہوں کہ میرے زمانے میں مولانا انور شاہ صاحب کا وجود اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے کہ ایسا محقق اور مدقق عالم اسلام کو حق سمجھتا ہے اور اس پر ایمان رکھتا ہے۔ ( حیات انور ص ص ۱۱۹ مؤلف ازہر شاہ قیصر)
علامہ کشمیری نے درس میں جو انقلابی تبدیلیاں لائیں اور جو خصوصیات اس فن میں جوڑ دیں اس کا اعتراف بڑے بڑے علماء و صاحب نظر لوگوں کو کرنا پڑا۔ مفتی محمود صاحب جیسے مبصر اور فقیہ کا فرمان ہے : ہندوستان نے حضرت شاہ ولی اللہ سے بڑھ کر کوئی مصنف اور مولانا انور شاہ سے ممتاز کوئی مدرس پیدا نہیں کیا۔ (نقش دوام ص ۱۴۵)
علامہ کشمیری ؒ نے اپنے پیچھے زیادہ تصنیفات نہیں چھوڑیںتاہم جتنی بھی کتب آپ کے قلم سے صفحۂ قرطاس پرمنتقل ہوئیں ان کی تشریح ابھی تک امت پر باقی ہے۔ ایک بار حضرت تھانوی ؒ نے آپ کے درس میں شرکت فرمائی ، سبق سے اُٹھ کر یہ ارشاد فرمایاکہ شاہ صاحب کے ایک ایک لفظ کی شرح میں مکمل رسالہ تصنیف کیا جاسکتا ہے۔ آپ کی تصنیفات و تالیفات میں مشکلات القرآن ،فیض الباری،انوار الباری، فصل الخطاب، عقیدۃ الاسلام فی حیاۃ عیسیٰ علیہ السلام، اکفار الملحدین، التصریح بما تواتر فی نزول المسیح، ضرب الخاتم علیٰ حدوث العالم، مرقاۃ الطارم،خاتم النبین،خزائن الاسرار وغیرہ مشہور و معروف ہیں۔
رابطہ :ریسرچ اسکالر ، اسلامک اسٹڈیز ، اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی،اونتی پورہ کشمیر۔
Email: [email protected]