سرینگر//سینئر کانگریسی لیڈر پروفیسر سیف الدین سوز نے کہاہے کہ گورنر ستیہ پال ملک نے اسمبلی تحلیل کئے جانے سے متعلق بیک وقت دو متضاد بیانات دئے ہیں ۔سوز کے مطابق گورنر کا اسمبلی تحلیل کرنا غیرآئینی تھا تاہم گورنر کا یہ کہنا کہ ریاست کے گورنرکو مرکزی سرکار کے کہنے پر ہی فیصلے لینے پڑتے ہیں ۔اپنے ایک بیان میں سیف الدین سوز نے کہاکہ گورنرستیہ پال ملک کبھی کبھی یہ بھول جاتے ہیں کہ لوگ جانتے ہیں کہ اُن کے فیصلوں کی دو صورتیں ہوتی ہیں،وہ اس طرح کہ تکنیکی طور یعنی قانون کی عمل آوری میں وہ اپنے فیصلوں کیلئے صدر جمہوریہ کے سامنے جواب دہ ہیں، مگر حقیقت یہی ہے کہ روز مرہ امور میں وہ ’پی ایم او ‘کے دائرے میں ہی اپنے فیصلوں پر عمل آور ہوتے ہیں!حال کے برسوں میں سپریم کورٹ نے یہ بات کلی طورپر طے کی ہے کہ گورنر جب بھی غیر آئینی طور پر اسمبلی کو برخواست کریںگے ،تو سپریم کورٹ اُن فیصلوں کو رد کرے گی۔ مثال کے طور پر حالیہ برسوں میں دو بار بی جے پی کو زبردست شکست کھانی پڑی۔ اتراکھنڈ کے گورنر نے Mar 27, 2016 کو اسمبلی برخواست کرنے کا فیصلہ کیا تو سپریم کورٹ نے اُس فیصلے کو رد کیا اور دوسری بار جب ارناچل پردیش کی اسمبلی کو 13 July 2016 کو غیر آئینی طور تحلیل کیا گیا تھا تو سپریم کورٹ نے اُس وقت بھی گورنر کے فیصلے کو رد کیا ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ گورنر ستیہ پال ملک کا جموں وکشمیر اسمبلی کو تحلیل کرنے کا فیصلہ غیر آئینی تھا اور سپریم کورٹ اس کو رد کرے گی!یہ الگ بات ہے کہ مفتی محبوبہ جی اس مسئلے پر سپریم کورٹ نہیں جا رہی ہے۔‘‘