میر جامد افضل
اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام عالم کے انس وجن کے لیے مبعوث فرمایا۔ آپﷺ نے تعلیم و تربیت کا فریضہ پوری طرح انجام دیا۔ اللہ کی کتاب کے الفاظ کی تعلیم دی۔ اس کے معانی اوراحکام بتائے اور عملی طور پر بھی خود کرکے دکھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت اور تعلیم و تبلیغ کا کام انجام دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ؐکے صحابہؓ کو منتخب فرمایا۔ ان حضرات نے بہت ہی تکلیفیں اٹھائیں اوراسلام کے عقائد اور اصول وفروع کے پھیلانے اور پہنچانے میں جانوں کی بازی لگادیں، جو دین انہیں ملاتھا ،اُسے محفوظ رکھا اور آگے بڑھایا اور عالم میں پھیلایا۔ ساری اُمت پر ان حضرات کا احسان ہے کہ اُمت تک پورا دین پہنچادیا۔ یہ حضرات نبی اکرم ﷺکے صحیح نائب بنے۔ علم بھی سکھایا اور عمل کرکے بھی دکھایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص کی قدر دانی فرمائی ،ان کی محنتوں کو قبول فرمایا۔ قرآن مجید میں ان کی تعریف فرمائی اور ان سے راضی ہوجانے کی خوشخبری دی اور ان کے بلند درجات سے آگاہ فرمایا۔
صحابہ صحابی کی جمع ہے، جس کے معنی ساتھی اور رفیق کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں صحابی اسے کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی ہو یا آپ ؐکی پاک صحبت کا شرف حاصل کیا ہو اور اسی حالت میں وہ دُنیا سے رخصت ہو گیا ہو۔صحابی رسول کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربت کا جو شرف حاصل ہے ،اس کا مقابلہ کوئی اور مسلمان ہرگز نہیں کر سکتا۔
صحابۂ کرام ؓسے محبت وعقیدت کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت نہیں ہوسکتی اور صحابہ کرامؓ کی پیروی کے بغیر آنحضورؐکی پیروی کا تصور محال ہے۔ کیونکہ صحابہ کرامؓ نے جس انداز میں زندگی گزاری، وہ عین اسلام اور اتباع سنت ہے اور ان کے ایمان کے کمال وجمال، عقیدہ کی پختگی، اعمال کی صحت و اچھائی اور صلاح وتقویٰ کی عمدگی کی سند خود رب العالمین نے انہیں عطا کی ہے اور معلم انسانیت ﷺ نے اپنے قولِ پاک سے اپنے جاں نثاروں کی تعریف وتوصیف اور ان کی پیروی کو ہدایت وسعادت قرار دیا ہے۔
غرض حضرات صحابۂ کرامؓ کی جماعت اس پوری کائنات میں وہ خوش قسمت جماعت ہے جن کی تعلیم وتربیت اور تصفیہ وتزکیہ کے لیے سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلم اور استاد واتالیق مقرر کیاگیا۔ اس انعام خداوندی پر وہ جتنا شکر کریں کم ہے، جتنا فخر کریں بجا ہے۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علمی وعملی میراث اور آسمانی امانت چونکہ ان حضرات کے سپرد کی جارہی تھی، اس لیے ضروری تھا یہ حضرات آئندہ نسلوں کے لیے قابل اعتماد ہوں، چناںچہ قرآن وحدیث میں جابجا ان کے فضائل مناقب بیان کیے گئے۔وحی خداوندی نے ان کے تعدیل فرمائی، ان کا تزکیہ کیا، ان کے اخلاص وللہیت کی شہادت دی اورانہیں یہ رُتبہ بلند ملا کہ انہیں رسالت محمدی ﷺکے عادل گواہوں کی حیثیت سے ساری دنیا کے سامنے پیش کیا۔ حضرات صحابہؓ کے ایمان کو ’’معیار حق‘‘ قرار دیتے ہوئے نہ صرف لوگوں کو اس کا نمونہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی،بلکہ ان حضرات کے لیے ادب و احترام کی تعلیم دی گئی ہے۔
اور خود کائنات کا پالن ہار ان کی تعریف وتوصیف بیان کرتا ہے، دنیاوی زندگی اور حیاتِ فانی ہی میں اپنی رضامندی اوران کی مغفرت کا اعلان کرتا ہے۔ اپنے خاص مقامِ رحمت جنت کی بشارت وخوش خبری سُناتا ہے، ارشادِ باری ہے: اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہوگیا اور وہ اللہ سے۔(سورۃ البینہ/۸)یک موقع پر حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایمان کی قبولیت کواور پھر ان کے ایمان کو معیار اور کسوٹی کا درجہ دیتے ہوئے ارشاد ہے: ایمان قبول کرو جیساکہ لوگوں نے ایمان قبول کیا۔(سورۃ البقرہ/۱۲) اور کبھی حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے باہمی ربط وتعلق اور محبت والفت کا نقشہ کھینچتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وہ باہم نہایت مہربان اور شفقت کرنے والے ہیں۔ (سورۃ الفتح/۲۹)
حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے قلوب تقویٰ وطہارت میں نہایت مزکّٰی ومصفّٰی تھے، اسی کو قرآن یوں بیان کرتا ہے:وہی ہیں جن کے دلوں کو جانچ لیا ہے اللہ نے ادب کے واسطے۔ (سورۃ الحجرات/۵)
نبی پاکﷺ نے بھی ارشادات اور فرمودات میں حضراتِ صحابہؓ کے فضائل ومناقب اور ان کی ذاتِ قدسی صفات کی تعریف وتوصیف خوب خوب بیان فرمائی ہے۔ خلیفۂ ثانی فاروقِ اعظم حضرت عمرفاروقؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہؓ کا اعزاز واکرام کرو، کیوںکہ وہ تم سے بہتر ہیں ،پھر ان کے بعد والے، پھر ان کے بعد والے۔
دوسری روایت حضرت جابر ؓ سے ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: آگ اس شخص کو نہ چھوپائے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے صحابی کو دیکھا ہوگا۔
حضرت ابوسعید خدری ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم لوگ میرے صحابہؓکو برا بھلا مت کہو! کیوںکہ (وہ تم سے بہت افضل ہیں) اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا راہِ خدا میں خرچ کرے گا، تب بھی وہ ان کے ایک مُد یا نصف مُد کو نہیں پہنچ پائے گا۔
حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں،پس ان میں سے جس کی اقتداء کرو،ہدایت پاؤ گے۔حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: میری امت میں سب سے بہتر لوگ میرے زمانے کے لوگ پھر ان کے بعد والے پھر ان کے بعد والے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میرے صحابہ ؓکے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ انہیں میرے بعد ہدف ملامت نا بنا لینا۔ پس جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ۔
صحابۂ کرامؓ عین دین کی بنیاد ہیں،دین کے اول پھیلانے والے ہیں، انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دین حاصل کیا اور ہم لوگوں تک پہنچایا، یہ وہ مبارک جماعت ہے، جسے اللہ جل شانہ نے اپنے نبی پاکؐ کی مصاحبت کے لیے چنا اور اس بات کی مستحق ہے کہ اس مبارک جماعت کو نمونہ بناکر اس کا اتباع کیا جائے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓفرمایا کرتے تھے جسے دین کی راہ اختیار کرنی ہے تو ان کی راہ اختیار کرے جو اس دنیا سے گزر چکے ہیں اور وہ حضرت محمدؐ کے صحابہ ہیں جو اس امت کا افضل ترین طبقہ ہے ،قلوب ان کے پاک تھے، علم ان کا گہرا تھا، تکلف اور بناؤٹ ان کے اندر نہیں تھی،اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اور دین کی اشاعت کے لیے چنا تھا، اس لیے ان کی فضیلت کوپہچانو ،ان کے نقش قدم پر چلو اور طاقت بھر ان کے اخلاق اور ان کی سیرتوں کو مضبوط پکڑو ،اس لیے کے وہی ہدایت کے راستے ہیں۔ان کی زندگیوں کا مطالعہ ایمانی کیفیت کو بڑھاتا ہے، زندگی کے اصول سکھاتا ہے،عقائد ،عبادات ،معاشرت اورمعاملات انسان کے درست ہوتے ہیں، سنت اور بدعت کی پہچان ہوتی ہے۔ اس زمانے کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ صحابہ کرام ؓکی مقدس زندگی کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کیا جائے جس سے لوگوں میں شوق عمل پیدا ہو اور اس مثال کو پیش نظر رکھ کر لوگ خود بخود اپنے عقائد واعمال کی طرف مائل ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاک زندگی کو پہچاننے کے لیے حضرات صحابہؓ ہی کی زندگی معیار ہوسکتی ہے کیونکہ یہی وہ مقدس جماعت ہے جس نے براہ راست حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استفادہ کیا اور آپؐ کی نبوت کی روشنی بغیر کسی پردےاور بغیر کسی واسطے کے صحابہ کرامؓ پر پڑی ،ان میں جو ایمان کی حرارت اور نورانی کیفیت تھی ،وہ بعد والوں کو میسر آنا ممکن نہ تھی، اس لیے قرآن کریم نے صحابہ کرامؓ کی پوری جماعت کی تقدیس وتعریف فرمائی ہے اور جماعت صحابہ کو مجموعی طور پر فرمایا : اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
(ساکنہ املر ترال)
[email protected]