عبد العزیز
یہودی ساری دنیا کی آبادی کا ایک حقیر ترین حصہ ہیں یعنی آج ان کی آبادی 60 لاکھ سے زیادہ نہیں اور اسرائیل کا رقبہ ہماری ریاست کے ایک ضلع محبوب نگر کے مساوسی ہوگا۔ اس چھوٹے سے ملک کے اطراف عرب آبادی دس کروڑ سے زائد ہے۔ قرآن شاید ہے کہ حضرت موسیٰ کے زمانہ ہی سے ان کے کر دار کی نمایاں خصوصیات شرارت، سر کشی زبان درازی اور عدول حکمی رہا ہے۔ یوروپی ممالک میں ہر جگہ یہودی بڑی حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، کوئی چار ہزار برس تک یہ راندہ درگاہ قوم اپنا کوئی ملک یا وطن نہیں بنا سکی ان کے خلاف نفرت و حقارت کی شدت کا اظہار نازی جرمنی کے ہٹلر کے رویہ سے ہوتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس نے کوئی ساٹھ لاکھ یہودیوں کو گیس چیمبرس میں بند کر کے ہلاک کر ڈالا۔ ان کے مکر و فریب، سخت دلی و سنگدلی، لالچ اور روپیہ کی حرص و آرزو کو ولیم شیکسپیئر نے شیلاک(Shylock) کے روپ میں زندہ جاوید کر دیا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد 1948ء میں معاہدہ بالفور کے ذریعہ انگریزوں کی چالاک سیاست کی وجہ فلسطین کی سر زمین ’’اسرائیل‘‘ کے نام سے دنیا کے یہودیوں کو جا بسنے کے لئےHome-land دیا گیا۔ 1953ء میں اس نو آبادی میں ان کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔ ان میں ہر پچاس نفوس میں ایک ڈاکٹر تھا۔ انہوں نے دنیا کے سارے ممالک کو تار بھیجا کہ ڈاکٹر زیادہ ہیں مریض بھیجئے۔ ساری عرب آبادی جو دس کروڑ کے قریب ہے ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکی۔ اس صحرائے سینا کو ان کے ماہرین زراعت نے تھوڑ ہی عرصہ میں سر سبز وشاداب علاقہ میں تبدیل کر دیا جو دنیا کے ماہرین سائنس کے لئے ایک حیرت انگیز کارنامہ سے کم نہیں۔ آج یہودی ساری دنیا کی سیاست، دولت، معیشت اور ذرائع ابلاغ پر اثر انداز ہیں۔ یہ سب کچھ ہر شعبہ حیات میں ان کے علم و فن میں ان کی غیر معمولی فضیلت کا نتیجہ ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی، سماجی علم طب اور انجینئرنگ میں اس قوم کے ماہرین بے حساب ہیں، نیو ٹن اور آئن سٹائن بھی یہودی تھے۔ دنیا کا سب سے بڑا علمی اعزاز نوبل انعام پانے والے 70 فیصد یہودی ہیں اور باقی حصہ میں ساری دنیا کے سائنسداں ادیب آتے ہیں۔ اس طرح یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ وہ بجا طور پر زمین کا نمک (Salt of the Earth) کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ ان کی محنت، جفا کشی، ذہانت و فضیلت علمی میں آج شاید ہی کوئی قوم ان کے مقابلہ پر آسکتی ہے۔
کوئی50 برس قبل کی بات ہے کہ ڈاکٹر عباس ندوی کا ایک مراسلہ ’’صدق جدید‘‘ میں شائع ہوا تھا جب کہ وہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں ایک یہودی مستشرق پروفیسر کی زیر نگرانی اسلامی اسلامیات میں اپنے ڈاکٹریٹ کی تیاری کر رہے تھے۔ ایک دن یہودی پروفیسر نے دیکھا کہ عباس ندوی ظہر کی نماز ایک چھوٹے سے کمرہ میں ٹیبل ہٹا کر پڑھ رہے ہیں۔ دوسرے ہی دن ان کے لئے مستقل نماز کی جگہ کا انتظام کر دیا گیا۔
ایک دن ڈاکٹر عباس ندوی نے سوال کیا کہ کیا بات ہے کہ آپ کی قوم میں اعلیٰ ترین دانشور، پروفیسر، سائنسداں اور ڈاکٹر وغیرہ موجود ہیں۔ آخر اس کا راز کیا ہے۔ پروفیسر نے جواب دیا کہ اگر کسی قوم کا طالب علم 100نمبر کا پرچہ حل کرتا ہے تو اس کو پورے نمبر دیتے ہیں۔ اگر یہودی طالب علم 100نمبر کا پرچہ حل کرے تو اس کو ہم90 نمبر دیتے ہیں۔ اس کو100 نمبر لینے کے لئے 10نمبر کا پرچہ حل کرنا پڑے گا تا کہ وہ اپنا اعلیٰ علمی معیار بر قرار رکھ سکے۔
تعلیم کی جو اہمیت ان کے ہاں ہے وہ روزنامہ ’’سیاست‘‘ حیدر میں شائع شدہ ایک مضمون (5نومبر 1995ء) سے ہوجائے گا جو مر زا شکور بیگ(حیدر آباد) تل ابیب ’’میرا وطن‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ اس مضمون میں جو بات غور کرنے کی ہے وہ اس ملک میں تعلیم کی اہمیت اور اس کا معیار ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’ یہاں خدا کے بعد تعلیم کو درجہ دیا جاتا ہے۔ تعلیم خدا کی نعمتوں کی طرح فری ہے۔ تعلیم کے معاملہ میں ہر شہری عابد علی خان ہاشم علی اختر اور پروفیسر حامد ہے۔1969 میں ساری دنیا کے یہودیوں نے یروشلم میں ایک عبادت گاہ کی تعمیر کے لئے ایک بلین امریکی ڈالر کا چندہ جمع کیا۔( یہ رقم ہندوستانی سکہ میں 3300کروڑ روپے کے مساوی ہوتی ہے) جب یہ رقم اسرائیل کے دینی پیشوا ئے اعظم(Chief Rabbi) کو نذر کی گئی تو اس کے الفاظ آب زر سے لکھنے ے قابل ہے۔ اللہ تعالیٰ ساری دنیاؤں کے مالک ہیں، ساری شان و شوکت اس کے لئے ہے۔ ہم کون ہوتے ہیں جو اس کے لئے ایک بلین ڈالر جیسی حقیر رقم کا محل تعمیر کرنے والے۔ اس کی بندگی تو ہر جگہ سوتے جاگتے کی جا سکتی ہے۔ خدا کو جاننے کے لئے علم ضروری ہے۔ جاؤ اس سے ایک تعلیمی ٹرسٹ بناؤ تا کہ کوئی یہودی بے علم نہ رہے۔ چنانچہ اس وقت اتنا بڑا تعلیمی ٹرسٹ کسی ملک میں نہیں ہے۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر ڈاکٹریٹ اور پوسٹ ڈاکٹریٹ تک تعلیم مفت ہے۔‘‘
اگر ہم سب مل کر ایک سو کروڑ روپے کا نہ ہی دس کروڑ روپے کا ہی مسلم تعلیمی ٹرسٹ(فنڈ) قائم کریں تو ملت کے دن بدل جائیں گے حوصلہ کی کمی، احساس کمتری، پستی اور بے حسی ہمارے اصل روگ ہیں جن کا علاج ہم بجائے عملی پروگرام کے محض تقاریر، بیان بازی، سمپوزیم، سمینار اور ریسرچ سے کرنا چاہتے ہیں۔
آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ دنیا میں صرف یہی ایک واحد قوم ہے جو اسلام کی طرح توحید کی پرستار ہے اور مسلمانوں کی طرح ان میں ختنہ کا رواج ہے۔ گویا مذہباً یہودی مسلمانوں سے سب سے زیادہ قریب ہیں۔
موبائل۔9831439068
ای میل۔[email protected]
(مضمون میں ظاہر ک گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)