ارشد منيم کا افسانوی مجموعہ

بقولے ارشد منيم صاحب اردو افسانے کے بارے ميں لکھتےہيں کہ اچھا افسانہ لکھنے کے ليے گہرا مطالعہ ضروری ہے۔ مطالعے سے افسانہ نگار کا ذہن کھلتا ہے، اسے تخليق کے ليے تحريک ملتی ہے۔اگرچہ ہم افسانے کی بات کريں گے تو موجوده دور ميں بھی افسانہ نگاری کا سفر جاری وساری ہے۔يہاں تک کہ نئے نئے تجربے کيےجا رہے ہيں۔ افسانہ نگاروں نے زمانے کے سبھی مسائل کو اپنےافسانوں کا موضوع بنايا ہے۔ سرزمين پنجاب اردو زبان و ادب کے تعلق سے بہت ہی زرخيز علاقہ ہے ،يہ شروع سے ہی اردو ادب کا گہواره رہا ہے يہی وه جگہ ہے جہاں اردو ادب کے بڑے بڑے اديب اور شعراءپيدا ہوئے جن ميں اقبال، ساحر لدهيانوی، کرشن چندر، منٹو اور راجندر سنگھ بيدی وغيره وغيره قابل ذکرہيں۔ پنجاب کا ايک شہر ماليرکوٹلہ ہے ۔اسی شہر کے ايک ابھرتے ہوئے افسانہ نگار ارشد منيم صاحب ہیں جنهوں نے اپنی افسانوی تخليقات سے پنجاب اور اردو ادب کو ايک نيا مقام ديا ہے اور موجوده دورميں يہ افسانے کو ايک نئی راه پر لے جانے کی کوشش کر رہے ہيں۔بشير مالير کوٹلوی جو کہ ارشد منيم کے استاد محترم ہيں، يہ اپنے شاگرد ارشد منيم صاحب کے بارے ميں لکھتے ہيں۔’’ارشد ايک احتجاج پسند افسانہ نگار کے طور پر ابھر رہے ہيں۔ ارشد جب تک اپنا مشاہده پختہ نہ کر ليں ، افسانہ تخليق نہيں کرتے۔‘‘ (خون کا رنگ، ص 10)ارشد منيم کا پورا نام محمد ارشد ہے ان کی پيدائش 26اکتوبر 1978 ميں مالير کوٹلہ ميں ہوئی۔ ان کے والدمحترم چودهری علم دين اور والده ماجده رمضانن ہيں۔ ان کا پہلا افسانہ ’’قربانی‘‘ روزانہ ہندسماچار ميں 22نومبر 2000 کو شائع ہوا اور يہیں سے انکے افسانوی زندگی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ ان کی تصانيف مختلف رسائل و اخبارات ميں شائع ہوتی رہی ہيں۔ افسانہ نگار کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ خواب خواب زندگی‘‘2015ء؁ ميں شائع ہوا۔ اس افسانوی مجموعہ ميں 17 افسانے اور 8 افسانچے ہيں۔ افسانہ نگار نے
مختصر افسانہ لکھنے کے ساتھ ساتھ افسانچے بھی لکھے ہيں۔امسال شائع ہوکر منظِر ارشد منيم صاحب کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’خون کا رنگ‘‘ اسی عام پر آچکا ہے۔اس مجموعہ ميں 12 افسانے اور 9 افسانچے ہيں۔ ارشد منيم کو مختلف انعامات سے بھی نوازه گيا ہے۔ يہاں تک کہ ارشد منيم موجوده دور ميں افسانہ کلب ماليرکوٹلہ پنجاب کے صدر بھی ہے۔نورالحسنين نے ارشد منيم کے افسانوں کے بارے ميں لکھا ہے۔ ارشد منيم بيانيہ کے ہنر سے واقف ہيں۔ افسانے کے پلاٹ اور کرداروں کی تشکيل کا سليقہ بھی وه جانتے ہيں۔ ان کے افسانوں کا اسلوب اگرچہ سيدھا ساده ہے پھر بھی ان کے افسانوں ميں ايک تجسس ہےجو قاری سے پوری کہانی پڑھوانے کا دم خم رکھتا ہے۔‘‘ (خواب خواب زندگی،ارشد منيم کا افسانوی مجموعہ ’’خون کا رنگ‘‘ جس کا پہلا افسانہ ’خون کا رنگ‘ ہے اس ميں افسانہ نگارنے طوائفوں کے کوٹھے کی منظر کشی کی ہے اور ان عورتوں کی زندگيوں کے اہم پہلوئوں کو اجاگر کيا ہے جو ويشيائوں کی زندگی گزارتی ہيں۔ اس افسانے ميں انہوں نے قومی يکجتی کی بات بھی کی ہے جب زمين پر سوئے بچوں کو ديکھ کر مرکزی کردار جو ايک افسانہ نگار ہے اس نے سواليہ نظروں سے بيڈپر بيٹھی عورت کو ديکھا تو وه بولی "ہاں بابو يہ ان عورتوں کے بچے ہيں جنہيں آپ يہاں مسکراتا ديکھ رہے ہيں"يہ سن کر ميں سوچنے لگا کہ سارے ملک ميں فسادات ہوتے رہتے ہيں، لوگ دھرم کے نام پر لڑ لڑ کر روزمرتے ہيں اگر کسی کو قومی يکجتی ديکھنی ہيں تو يہاں آکر ديکھے ،ان بے خود ہو کر سو رہے بچوں کوديکھ کر کوئی نہيں بتا سکتا کہ ان ميں سے رحيم کا خون کون ہے اور رام کا کون ۔۔۔دوسرا افسانہ ’بکائو‘ ہے جس ميں اميری اور غريبی کی زندگی کا عکس نظر آتا ہے ۔اس افسانے ميں دودوست ہوتے ہيں ايک امير دوسرا غريب ۔امير دوست جس کا نام وکی ہوتا ہے اسے اس بات پر يقين ہوتا ہے کہ دنيا کی ہر ايک چيز بکاؤ ہے ليکن پيسے کے نشے ميں وه يہ سب بھول جاتا ہے کہ موت بکاؤنہيں ہوسکتی ۔۔ اور جب وکی کا انتقال ہو جاتا ہے تو اسکے دوست کے ذہن ميں يہ بات گونجتی رہتی ہےکہ ميرے بھولے بادشاه جب دولت ہوتی ہے تو تندرستی اپنے آپ آجايا کرتی ہے ،ہر چيز بکاؤ ہے۔تيسرا افسانہ ’سوال کی صليب‘ ہے جس ميں افسانہ نگار نے ايک لڑکی کے جذبات اور اس کے سپنوں کوبيان کيا ہے جب اس کے سپنوں کو پورا نہيں کيا جاتا اور جب وه شادی کرکے دوسرے گھريعنی اپنےشوہر کے گھرجاتی ہے تو وہاں پر بھی اپنی ساس اور شوہر کے ذريعے ُدکھی کرکے گھر سے نکال دیجاتی ہے يہ بول کر کہ ’’نکل جا ميرے گھرسے يہ تيرا گھر نہيں ہے ‘‘ لڑکی کا گھر نہ تو مائيکا ہے اور نہ ہی سسرال ، پھر لڑکی کا گھر کونسا ہے۔ يہ سوچ کر لڑکی سوال کی صليب پر لٹک جاتی ہے۔ اس طرح سےہمارے سماج ميں ايک لڑکی کے جذبات کے ساتهھ کھيلا جاتا ہے اور اسے دربدر کی ٹھوکريں کھانے کےليے مجبور کر ديا جاتا ہے۔احساس جرم يہ ايک بہترين افسانہ ہيں يہ درد و غم سے بھرا ہوا افسانہ ہے جب قاری اسکی ورقگردنی کرتا ہے تو اسے اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ موجوده دور ميں بيٹياں بہت قيمتی ہيں کيوں کہ اکثر لوگ بيٹيوں کے پيدا ہونے پر مايوس ہو جاتے  ہیں، يہ افسانہ ان کے ليے سبق آموز افسانہ ہے۔خاموشی يہ بھی ايک بہترين افسانہ ہے اس ميں بيوی کی غلط فہمی سے اسکی جان چلی جاتی ہے ۔۔خواہش ‘‘ اس افسانےميں کم عمری ميں جنسی مناظر ديکھ کر خود کو اور دوسروں کو برباد کرنے والوںکی نہايت ہی عمده منظر کشی کی گئی ہے ۔الغرض ہم کہہ سکتے ہيں کہ ارشد منيم اکيسويں صدی کے ايک اُبھرتے ہوئے افسانہ نگار ہيں اور ايک زنده دل انسان بھی ۔ ارشد منيم صاحب نے اپنے افسانوں کا موضوع موجوده دور کے دکھ، درد ،پريشانياں، جہالت معاشرے کی تمام برائيوں، ناہمواريوں، دکھاوے کی زندگی، اپنے فرض سے پيچھے ہٹنا،اميری غريبی کا فرق، جسم فروشی، جنسی نفسيات، بے حسی وغيره کو اپنے افسانوں کا موضوع بنايا ہے۔۔ روز مرہ زبان کا استعمال کيا ہے۔ ان کا کوئی بھی افسانہ طويل ان کے افسانے ساده اور سليس ہيں وہ نہیں، جس سے قاری کو اکتاہٹ محسوس ہو۔ ہر افسانہ معاشرے کی کسی نہ کسی بُرائی کو بے نقاب کرتاہے۔ انهوں نے سارے افسانے اور افسانچے بامقصد لکھے ہيں۔
(ريسرچ اسکالر شعبہ اردو بابا غلام شاه بادشاه يونيورسٹی راجوری)
فون نمبر۔ 9797864093