ڈاکٹر عریف جامعی
ادب انسانی معاشرے کے بے سادہ پردے پر جمالیات کے پھولوں کا رنگ چڑھاتا ہے۔ ادب سے انسانی جذبات میں حدت کے ساتھ ساتھ حسن پیدا ہوتا ہے۔ یہ دلوں کو سوز و گداز سے بھر دیتا ہے۔ یہ انسانی رویوں کا چڑچڑاپن دور کرتا ہے۔ اس سے انسانی معمولات سے چہروں پر پھیلنے والی اداسی رفع ہوتی ہے۔ یہ دل کی دھڑکنوں کو انسانی اعضاء و جوارح کی حرکات و سکنات سے ہم آہنگ کرتا ہے۔
تاہم چمنستان ادب کی آبیاری کے لئے اس کے باغبان کو اپنے پورے قافلے کے ساتھ مستعد اور متحرک رہنا پڑتا ہے۔ ادبی محافل اور مجالس کا انعقاد اسی مستعدی اور تحریک کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ ایسی مجالس سے چشمۂ ادب میں صاف پانی کے سوتے شامل ہوتے رہتے ہیں، جس سے ادبی آب حیات کی سطح برقرار رہتی ہے۔ یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ادبی محافل ادب کے فوارے کو ’’زور دروں سے بلند‘‘ کرتی ہیں۔
راقم کی نظر میں ادبی مرکز کمراز جیسی فعال ادبی تنظیم کی ۴۴ویں ادبی کانفرنس نے تمام شرکاء کے لئے سیکھنے کا ایک وافر سرمایہ فراہم کیا۔ یہ کانفرنس جو ۲ اور ۳ نومبر کو کشمیری یونیورسٹی کے نارتھ کیمپس، دلنہ بارہمولہ میں منعقد ہوئی، مختلف نشستوں کا ایک گلدستہ تھی۔ اس کی ہر ایک نشست سے شرکاء اور سامعین نے بہت کچھ حاصل کیا۔ چونکہ راقم اول سے آخر تک اس کانفرنس میں شریک رہا، اس لئے اس کی ادبی خوشبو سے راقم کا ادبی ذوق نہایت محظوظ ہوا۔ اس لئے یہ سطور اس کانفرنس سے راقم کے اخذ و استفادے پر مبنی ہیں۔
کانفرنس کی پہلی نشست ادبی مرکز کمراز کے سیکریٹری، فاروق شاہین کے ’’تعارفی کلمات‘‘ سے شروع ہوئی۔ تلاوت کلام پاک، نعت اور تنظیم کا ترانہ چلانے کے بعد تنظیم کے صدر محمد امین بٹ صاحب نے مہمانوں کا استقبال کیا۔ تنظیم کے جنرل سیکرٹری شبنم تلگامی نے تنظیم کی کارگزاری کا ایک خلاصہ پیش کیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر سوہن لال کول نے ’’کلیدی خطبہ‘‘ پیش کیا۔ آپ نے اس میں جہاں ادبی مرکز کمراز کی خدمات کا ذکر کیا، وہیں آپ نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ روایات کے ساتھ بغاوت کرنے کی ضرورت نہ سہی، لیکن روایات کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جہاں پرانے ادبی بیانیے (لٹریری نریٹیو) کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے، وہیں ادبی ہیئتوں کا کایا کلپ (مٹامارفوسس) کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ جنوبی کوریائی خاتون مصنف ہان کانگ، جنہوں نے ۲۰۲۴ ء کا نوبل انعام برائے ادب حاصل کیا، کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ’’ہمیں اس ادب کی ضرورت ہے جو امید پیدا کرے‘‘۔ ادیب کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اور سرعت سے بدلتی معاشرتی قدروں نے اسے ’’جھٹکۂ مستقبل‘‘(فیوچر شاک) دیا ہے، اس لئے اسے ماضی کے پیمانوں کو بدلنے (ریبوٹ کرنے) کا خطرہ مول لینا ہی پڑے گا۔ اسے اب نئے کرداروں کی ضرورت ہے جو جذبات کو زبان دے سکیں۔ اسے جہان ’’حساب و شمار‘‘ (الگورتھم) کی تلاش و جستجو کرکے ٹیکنالوجی کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا ہوگی۔
مجتبیٰ خان صاحب نے ادبی مرکز کمراز کے ’’گوگل مشن‘‘ کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ آپ نے سامعین کو یہ خوشخبری سنائی کہ مائکروسافٹ پر کشمیری زبان کے تئیں کام تقریباً مکمل ہوچکا ہے، جبکہ گوگل اور مصنوعی ذہانت پر کام سرعت سے جاری ہے۔ آپ نے ادباء اور شعراء سے گزارش کی کہ وہ اس کاوش میں ماہرین کے ساتھ بھرپور تعاون کریں۔ ڈاکٹر قاضی خورشید (شعبۂ انگریزی کشمیر یونیورسٹی، نارتھ کیمپس)جو اپنے ہمکار ڈاکٹر فیاض امین کے ساتھ اس کانفرنس کے شریک میزبان بھی تھے، نے اپنی تقریر میں ادب کو معاشرے کے لئے طاقت کا سرچشمہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ادب ہمیں نہ صرف زبان بلکہ حوصلہ بھی فراہم کرتا ہے اور اس سے مختلف قسم کی دیواریں بھی گرتی ہیں۔ ولی محمد اسیر کشتواڑی نے وادئ چناب اور خطۂ پیر پنچال میں کشمیری زبان کی تسلی بخش صورتحال کی بات کی اور یہاں کی ادبی خدمات کا مختصر ذکر بھی کیا۔ پروفیسر نذیر احمد گنائی، وائس چانسلر ایگریکلچر یونیورسٹی نے اپنی مفصل گفتگو میں مادہ پرستانہ ماحول پر بات کرتے ہوئے اس سے بچنے کی تلقین کی۔ آپ نے فرمایا کہ زبان و ادب کو جاننے کے لئے ہمیں ثقافت اور مذہب کو بھی جاننا ہوگا۔ آپ نے ان وجوہات کو جاننے پر بھی زور دیا جو مادری زبان سے عدم توجہی کا باعث بنے۔ آپ نے اپنی یونیورسٹی میں سائنسی اور تکنیکی تراکیب کو کشمیری میں ڈھالنے کے کام پر بھی روشنی ڈالی۔
پروفیسر شاد رمضان نے اپنے مفصل صدارتی خطبے میں زبان کی اہمیت اور افادیت کو واضح کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ادب ہی ثقافت کو جاننے کا ذریعہ ہے۔ آپ کے مطابق ہمیں اس رشی روایت سے جڑنا ہوگا جس کے پیچھے ۳۰۰۰ سالہ تاریخ ہے اور جس کے ترجمان لل دید اور شیخ نورالدین ہیں۔ کشمیری ادب کی تاریخ کے سلسلے میں آپ نے ’’کتھا سرت ساگر‘‘اور ’’کلیلہ و دمنہ‘‘ کا ذکر بھی کیا، جن کے تانے بانے کشمیری ادب کے ساتھ ملتے ہیں۔ آپ نے اعلی تعلیم کے عہدہ اداروں کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرائی کہ ان اداروں میں کشمیری ترجمہ کاروں کے لئے گنجائش اور مواقع پیدا کریں۔ آپ نے محکمۂ تعلیم کو مخاطب کرتے ہوئے کشمیری کو ابتدائی تعلیم سے لیکر یونیورسٹی سطح تک پڑھانے پر زور دیا۔
’’بڑے ادیب، ادارے اور نئے قلم کار: شکوہ اور جواب شکوہ‘‘ (بٔڈی ادیب، ادارء تہٕ نٔوی لکھآری: شکوٕ تہٕ جواب شکوٕ) اس کانفرنس کی ایک اہم نشست رہی۔ اس نشست میں غلام نبی شاکر اور شاکر شفیع نے شکوہ کنندگان (نئے قلم کاروں) اور بڑے ادباء کے درمیان رابطے کا کام کیا۔ جہاں نشست میں ادارے (تنظیم، ادبی مرکز کمراز) کے نظام کے متعلق سوالوں کے جواب جناب محمد امین بٹ (صدر، ادبی مرکز کمراز) اور ڈاکٹر رفیق مسعودی (سرپرست، ادبی مرکز کمراز) نے دیئے، وہیں ادب، ادبی منظر نامے اور ابھرتے قلم کاروں کو درپیش مسائل سے متعلق سوالات کے جوابات پروفیسر شاد رمضان، پروفیسر نسیم شفائی، جناب مشتاق احمد اور جناب شہناز رشید نے دیئے۔ اس نشست کا اختتام جناب اعجاز الحق کے نئے قلم کاروں کے لئے اس پیغام سے ہوا کہ ’’قلم کار اس سطح پر آجائے جہاں اسے قاری تلاش کرے۔‘‘ اس کے بعد محفل مشاعرہ، جس کی صدارت پروفیسر نسیم شفائی نے کی، میں کئی شعراء اور شاعرات نے شرکت کی اور اپنا کلام سنایا۔کانفرنس کے دوسرے روز ’’مصنوعی ذہانت اور کشمیری زبان کا مستقبل‘‘ (مصنوعی ذہانت تہٕ کآشر زبآنی ہند مستقبل) پر ڈاکٹر مظفر رسول بٹ (آئی۔یو۔ایس۔ٹی۔) نے پی۔پی۔ٹی۔ کے ذریعے بات کی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر ہم مصنوعی ذہانت کے استعمال سے پشمینہ اور زعفران کو پرکھ سکتے ہیں، تو ہم این۔پی۔ایل۔ (نیچرل لینگویج پروسیسنگ، جو مشین لئرننگ کی ایک شاخ ہے) اور ڈیپ لئرننگ کے ذریعے کشمیری زبان کو بھی ڈجٹائز کرسکتے ہیں۔ تاہم اس کے لئے کشمیری زبان کے ماہرین کو مصنوعی ذہانت کے ماہرین کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب ہم سب اپنی ثقافتی شناخت کے تئیں بھر پور حساسیت کا مظاہرہ کریں گے۔
محفل قرارداد میں دو قراردادیں پیش کی گئیں۔ پہلی قرارداد، جو جناب مجید مجازی نے پیش کی، میں متعلقہ حکومتی اداروں تک یہ بات پہچائی گئی کہ کشمیری کو تعلیمی اداروں میں بھر پور حصہ ملنا چاہئے اور کشمیری نویں اور دسویں جماعت کے ساتھ ساتھ ہائر اسکنڈری سطح تک متعارف ہوکر نصاب کا حصہ بننی چاہئے۔ دوسری قرارداد ادبی مرکز کمراز کے صدر، جناب محمد امین بٹ نے پیش کی۔ اس قرارداد میں کشمیری زبان کو کلاسیکی زبان کا درجہ دینے پر زور دیا گیا۔ جناب شبیر مجاہد نے مصنوعی ذہانت کے اس دور میں کشمیری زبان کو اس ذہانت کے ذریعے محفوظ اور مربوط کرنے کی بات کی۔رکن اسمبلی جناب جاوید حسن بیگ نے ایک مرقع تقریر کرکے ثابت کیا کہ دنیائے سیاست اور علم و ادب ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ تخلیق آدم کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے علم اور عبادت کے فرق کو واضح کیا۔ آپ نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ کشمیری بحیثیت ایک قوم علم سے کبھی بیگانہ نہیں رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ چونکہ خدا کی عطا کردہ نعمتیں قدر کرنے سے بڑھ جاتی ہیں، اس لئے ہمیں اپنی اچھی علمی اور ادبی روایات کی قدر کرنا ہوگی۔ اس کے لئے ہمیں ظلم کی تلافی کرنا ہوگی اور تعصب، منشیات اور بیجا رسومات سے بچنا ہوگا۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس بات کا ادراک کرلیں کہ ہم نے کیا کھویا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم ہنوز علامہ اقبال کے اس شعر کی جیتی جاگتی تصویر ہیں:
وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
پروفیسر فاروق فیاض نے اپنے صدارتی خطبے میں ادیب، عالم، سیاستدان اور مفکر کو تحفظ ثقافت کے لئے بڑا اہم قرار دیا۔ آپ نے حقیقت تک پہنچنے کے لئے جستجو، تحقیق اور تفکر کی ضرورت کو واضح کیا۔ تاہم آپ نے روایت اور جدت کے درمیان موجود خلیج کو پر کرنے کی طرف سامعین کی توجہ مبذول کرائی۔ آپ نے ان زخموں کو مندمل کرنے کی طرف بھی اشارہ کیا جو ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ سیاستدانوں کی طرف رخ سخن پھیر کر آپ نے انہیں ادب کے تئیں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا مشورہ بھی دیا۔
محفل اعزازات، جس کی صدارت پروفیسر محمد زمان آزردہ نے کی، میں جہاں ادب، معاشرت، تعلیم اور روحانیت میں اعلی کارکردگی انجام دینے والے کئی افراد کو ’’خلعت حنفی سوپوری‘‘ سے نوازا گیا، وہیں ادبی مرکز کمراز کی دو اکائیوں کو ’’شرف کمراز‘‘ اعزاز دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کانفرنس کے منتظمین میں سے کئی افراد کو مہمانوں کا خاص خیال رکھنے پر تحائف (ممنٹوز) دیئے گئے۔ اس محفل میں کشمیری (میں ترجمہ شدہ) نکاح نامہ اور دو کتابیں (مصنفین، ظہور ہائیگامی اور اسیر کشتواڑی) بھی اجرا کی گئیں۔ محفل میں رکن اسمبلی فاروق احمد شاہ نے کشمیری زبان سے متعلق چند انتظامی معاملات کا ذکر کیا اور ایڈوکیٹ نیلوفر نے کشمیری قانونی زبان نہ ہونے پر تعجب کا اظہار کیا۔ یہ محفل پروفیسر محمد زمان آزردہ کے صدارتی خطبے سے اختتام کو پہنچی، جس میں آپ نے مختلف افراد کی منفرد صلاحیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مل کر ادب کی خدمت کرنے پر زور دیا۔ اس ضمن میں آپ نے حاجن سوناواری کی ادب نواز اور ادب پرور بستی کا خصوصی ذکر کیا۔ آپ نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ ہم اب احساس کمتری سے باہر آئے ہیں اور ہماری نسل نو جوش اور جذبے کے ساتھ ادب کی خدمت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
کانفرنس کے اختتام پر مہمان ظہرانے سے محظوظ ہوئے۔ واضح رہے کہ شعبۂ ضیافت و مہمانداری (ہاسپٹیلٹی اینڈ پروٹوکول)، جس کی کمان حلقۂ ادب سوناواری کے صدر، شاکر شفیع کے ہاتھوں میں تھی، نے جس نظم و ضبط اور محنت کے ساتھ مہمان نوازی کے فرائض انجام دیئے، اس سے ایک بار پھر ثابت ہوا کہ ادب کے معنی میں نہ صرف مہمانداری بلکہ حلم اور برداشت بھی شامل ہے۔ کانفرنس کے ایسے حسن انتظام کے لئے ادبی مرکز کمراز کے سرپرست ڈاکٹر رفیق مسعودی اور صدرجناب محمد امین بٹ اور ان کی پوری جمعیت (ٹیم) مبارکباد کی مستحق ہے۔
(مضمون نگار گورنمنٹ ڈگری کالج سوگام میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ۔ 9858471965