’’میرے ساتھ چلو ہمیں ٹیگور ہال تک جانا ہے وہاں ایک مشاعرہ ہورہا ہے۔‘‘یہ کہتے ہوئے مرحوم ڈاکٹر فرید پربتی نے اپنی ٹاٹا انڈیکا گاڑی کا دروازہ کھولا۔میں بادل ناخواستہ گاڑی میں سوار ہوا۔ ٹیگور ہال پہنچتے ہی چند نامانوس چہروں نے باری باری فرید پربتی سے مصافحہ کیا۔ایک شخص نے معانقہ کرتے ہوئی کہا کہ ڈاکٹر صاحب ہم آپ کے کہنے پریہاں آئی ہیں۔فریدصاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’اگر اپنی شاعری میں نکھار لانا چاہتے ہو تو مشاعروں میں اچھے شعرا کے کلام کو سننے کی عادت ڈالو‘‘۔ مشاعرہ کی صدارت مرحوم حکیم منظور کررہے تھے۔ مشاعرہ ختم ہونے کے بعد مرحوم فرید پربتی نے ایک شاعر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ذرا وحید مسافر کو بلا?ئو‘۔۔۔
میں وحید مسافر ،جن کا میں نے ابھی ابھی نام سنا تھا،کو ڈھونڈنے لگا۔دبلی پتلی جسامت، سفید وسیاہ ہلکی داڑھی، یلے رنگ کی قمیض پہنے اور انگلیوں میں دبائے سگریٹ کے کش لیتے ہوئے وہ ایک اور شاعر مبشر رفاعی کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ نزدیک جانے کے بعد معلوم ہوا کہ وحید صاحب انہیں اپنے اشعار سنارہے ہیں۔میں نے جسارت کرتے ہوئے کہا کہ فرید پربتی صاحب آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں۔چند منٹوں کے بعد فرید صاحب چندشعراء کے ساتھ ٹیگورہال کے صحن میں ایک دائرے کی صورت میں بیٹھے تھے۔میرے ذہین کے کینواس پر موجود اُس منظر کی یاد کے مطابق اُن شعرا میں پرویز مانوس ?مبشر رفاعی ?کفایت فہیم،رؤ?ف راحت اور اشرف عادل قابل ذکر ہیں۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ فرید صاحب ’’کاروان اردو‘‘ کے نام سے ایک ادبی تنظیم بنانے کا ارادہ تھے، جسکی وہاں موجود سبھی افرادنے حامی بھری۔ صلاح مشورے کے بعد فرید پربتی کو صدر اوروحید مسافر کو نائب صدر نامزد کیا گیا۔پھر کئی ہفتوں تک اس تنظیم کے ہفتہ وار مشاعرے مبشر رفاعی کے دفتر واقع مگرمل باغ میں منعقد ہوتے رہے۔ایک دو مشاعرے نوگام میں وحید صاحب کے کلنک پر بھی ہوئے۔ ہر ہفتہ وحید مسافرؔ اپنے کلام سے نوازتے رہتے۔ ان کے ساتھ ہمیشہ ایک ڈائری ہواکرتی تھی اور جہاں ملے ?جب ملے کچھ اشعار ضرور سناتے۔کشمیر عظمیٰ میں جب بھی کوئی غزل چھپتی تو فون کرکے ضرور اطلاع دیتے۔میں ہنسی مذاق میں کہتا کہ پہلے چائے پلانے کا وعدہ کریں پھر آپکی غزل پڑھوں گا۔ خوش دلی سے حامی بھرتے۔ یہ سلسلہ کئی سالوں تک چلتا رہا۔
محبت و انسیت کا یہ عالم تھا کہ اپنی ذاتی زندگی کے واقعات دہراتے رہتے۔اپنے پچپن کی یادیں ، لڑکپن کی شرارتیں غم روزگار کے تجربے اور اس جدوجہد میں تجربہ ہوٹل کی نوکری کئی پیشے اختیار کرنے کے بعد آخر پر بحیثیت فارماسسٹ ایک سینئر عہدے پر جاب کرنے کی روئیداد۔ان سب باتوں میں ایک بات قدر مشترک تھی ?وہ مرحوم کی خودداری ہے جس کا دامن وحید صاحب نے مرتے دم تک نہیں چھوڑا۔ہاں ایک عادت ضرور ایسی تھی جو اُس وقت کھلتی تھی جب ایک کے بعد ایک سگریٹ جلا کے کش پہ کش لیتے تھے۔ یہاں تک کہ سامنے والا بھی کھانسے لگتا تھا۔اس بات کا زیادہ مشاہدہ مبشر رفاعی کو ہوگا کیونکہ دونوں نے اپنی تخلیقی زندگی کی شروعات اکھٹے کی ہے۔بات 1999کی ہے کہ ان کے ایک common دوست ڈاکٹر سید کونین کرمانی چھتر گام میں ایک ہسپتال میں تعینات تھے۔ڈاکٹر صاحب نے دونوں کو ایک پرائیویٹ کلنک کھولنے کا مشورہ دیا۔جہاں دونوں دوست ایک دوسرے کو اپنی تُک بندیوں سے محظوظ کرتے تھے۔ چار سالوں کے کم عرصہ میں ہی دونوں شعرو شاعری کی زلف کرہ گیر کے اسیر ہوگئے اور کشمیر عظمیٰ کے ہفتہ وار ایڈیشن کی زینت بنتے گئے۔ اگر کبھی وحید صاحب کا فون بند ملتا تو مبشر رفاعی سے مرحوم کے بارے ضرور پتہ چلتا۔
ایک دفعہ وحید مسافر صاحب طویل عرصہ تک نہیں دکھائی دیئے?۔حسب روایت مشبر رفاعی سے معلوم ہوا کہ مرحوم عرب گئے ہیں، جہاں ان کی بیٹی اور فرزندِ نسبتی رہتے ہیں۔ قریباًایک سال کے بعد وحید مسافر بنفس نفیس میرے سامنے کھڑے ہوگئے۔۔میں حیرت و انبساط میں ان تکتا رہا۔ بڑے خوش لگ رہے تھے۔چندکھجوریں اور آب زمزم کی ایک چھوٹی بوتل دیتے ہوئے گویا ہوئے۔’’برخوردار میں نے عرب میں بھی اردو مشاعرے میں شرکت کی ‘‘ یہ کہتے ہوئے جھوم رہے تھے۔پھر چند ہفتوں کے بعد ’’پرواز تخیل ‘‘ کے عنوان سے ایک شعری مجموعہ بھی شائع کیا۔ مجموعہ میں رفیق راز صاحب کی تقریظ بھی شامل ہے۔ راز صاحب اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں :
’’ وحید مسافر ادب کے میدان میں نووارد نہیں۔ وہ ایک مدت دراز سے شعرگوئی کر رہے ہیں۔ہاں یہ بات ضروری ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیا اور اس کی طرف وہ توجہ نہ دی جو اکثر شعراء کرتے آئے ہیں۔چنانچہ وہ اب ملازمت سے فارغ ہوگئے، اس لئے اب وہ اپنی شاعری کو سنجیدگی سے دیکھ اور لکھ رہے ہیں۔یہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔اس مجموعے میں ان کے ابتدائی دور کا کلام بھی ہے اور باکل تازہ کلام بھی۔اس شعری مجوعہ ’’پرواز تخیل ‘‘ میں غزلیات کے علاوہ نعتیں بھی شامل ہیں ‘‘
بڑی محبت سے کتاب دیتے ہوئے کہنے لگے’’اب شیرازہ میں اس پر ضرور تبصرہ کرنا‘‘۔۔۔۔
گھر پہنچتے ہی میں نے کتاب کی ورق گردانی شروع کی تو کچھ اشعار بہت ہی پسند آئے۔
گناہوں کی حد میں یہ سب خشک و تر ہے
ہوس سے بھری اس لئے ہر نظر ہے
اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھئے
جھانکئے خود دل کے اندر دیکھئے
نشانی جس کی لے کر تم چلے ہو
وہ اب اس شہر میں رہتا کہاں ہے ؟
ترے باغ ارم میں پھول ہر سوہیں کھلے ،دیکھا
مگر مالی نے تحفے میں فقط کانٹا دیا مجھ کو
قطرۂ شبنم سے سارا جسم اپنا جل گیا
چاندنی کی شعلہ سامانی سے تم بچ کر چلو
پھر ایک دن یہ شکایت لے کر آئے کہ میں نے کتاب شائع کرکے بڑی غلطی کی۔میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے۔’’برخودار سینکڑوں کتابیں مفت تقسیم کیں لیکن پھر بھی کسی نے ایک سطر لکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اب گھر میں کتابوں کا ڈھیر دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔‘‘
شومئی قسمت 2014 کے سیلاب میں وحید مسافر مرحوم کا مکان بھی زد میں آگیا۔نتیجہ سب کتابیں سیلاب برد ہوگئیں۔ پھر جیسے ادب سے طبیعت ہی اوب گئی۔زندہ رہنے کی خواہش مرگئی تھی۔کبھی کبھار فون پر باتیں ہوتیں۔مزاج میں سستی آگئی تھی۔بیمار رہنے لگے تھے۔گھر سے نکلنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ آہستہ آہستہ سلسلے منقطع ہونے لگے۔یہاں تک کہ وحید صاحب کا آخری وقت بھی آگیا اور میں بے خبری کے عالم میں مصروف تھا۔آج جب9مارچ 2020 کو سید مبشر رفاعی نے وحید مسافر کی رحلت کی خبر دی تو میں خود کو کوستا رہاکہ کم ازکم ایک بار مرحوم سے مل لیتا۔اب سوائے دعا مغفرت کے میرے پاس کچھ نہیں ہے۔۔۔اللہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔
آمین