سرینگر//آہوں،سسکیوں اور رقعت آمیز مناطر کے بیچ سرینگر میں لاپتہ ہوئے لوگوں کے لواحقین نے اپنے لخت ہائے جگروں کی یاد اور بازیابی کیلئے خاموش احتجاجی دھرنا دیا۔سنیچرکی صبح وادی کشمیر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد جن میں مر د و زن ،بچے اور بزرگ شامل تھے ،نے پرتاپ پارک سرینگر میں جمع ہو کر اے پی ڈی پی کے بینر تلے اپنے عزیز و اقارب اور لخت ہائے جگروں کی بازیابی کے حق میںپر امن احتجاجی دھرنا دیا۔احتجاجیوںنے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈ اٹھارکھے تھے جن پرلاپتہ افراد کو بازیاب کرو ،ہمیں انصاف فراہم کروکے نعرے درج تھے ،جبکہ بیشتر پلے کارڈوں اور بینروں پر ان نوجوانوں کی تصویریں چسپاں تھیں جو گزشتہ3 دہا ئیوںکے دوران فورسز کے ذریعے دوران حراست لاپتہ کرد ئے گئے ہیں۔اس موقعہ پر اے پی ڈی پی کی سربراہ پروینہ آہنگر نے کہا ’یہ روز ِ روشن کی طرح کی عیاں کہ ہمارے لخت جگروں کو ہماری آنکھوں کے سامنے فورسز نے اٹھا کر غائب کردیا ،برسوں بیت گئے لیکن ہمارے جگر گوشوں کا کہیں کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین اور عزیز و اقارب نے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ جب تک اْنکے لخت ہائے جگروں کی باز یابی کے حوالے سے موثر اقدامات نہیں کئے جاتے ،تب تک احتجاجی جدوجہد جاری رہے گی۔اس دوران اپنے لاپتہ عزیز واقارب کی با زیابی کو لے کر احتجاج کر نے والے افراد نے کھٹوعہ میں 8سالہ آصفہ کے ساتھ پیش آئے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی کی مانگ بھی کی ہے ۔احتجاج میں شامل افراد نے کہا کہ کھٹوعہ میں پیش آیاسانحہ انسانیت کے خلاف اور ننگی درندگی ہے اور ایسا فعل صرف جانور ہی انجام دے سکتے ہیں اور ایسے افراد کے خلاف فوری طور پر کاروائی کی جائے اور انہیں عبرتناک سزا دی جائے ۔احتجاج میںدیور لولاب کے گزشتہ برس31اگست کو مبینہ طور پر لاپتہ ہوئے نوجوان منظور احمد کے دو بھائیوں نے بھی شرکت کی۔انہوں نے کہا31اگست2017کومنظوراپنے چاچا اور ہمشیرہ پروینہ کے ہمراہ تری مکھ بہک گئے،جہاں وہ موسم گرما میں رہتے تھے،جبکہ اس کے نزدیک میں27آر آر کا کیمپ بھی قائم ہیں،اور انہوں نے داخلی گیٹ پر اس علاقے میں آنے والے لوگوں کیلئے ناموں کا اندراج اور اخراج کرنا لازمی بنادیا ہے۔انہوں نے کہا کہ منظور احمد فوجی چوکی پر سنتری کے پاس تینوں لوگوں کے نام کا اندراج کرنانے کیلئے گیا،جبکہ وہ اور اس کی ہمشیرہ کیمپ کے باہر اس کا انتظار کرتے رہے،تاہم کافی دیر تک وہ باہر نہیں آیا،بلکہ انہیں میجر نشانت نے اس کے برعکس کیمپ کے اندر لیا۔انہوں نے کہا کہ جب منظور کے چاچانے سنتری سے منظور احمد کے بارے میں پوچھ تاچھ کی،تو وہ کوئی اطمینان بخش جواب نہ ے سکا۔ انہوں نے بتایا کہ اس دوران نصراللہ نامی ایک اور نوجوان کے رشتہ دار بھی آئے،جس کو بھی اسی کیمپ میں بند رکھا گیا تھا،اور وہ انکے بارے میں پوچھ تاچھ کرنے لگے،تاہم جب انہیں کوئی معقول جواب نہیں ملا،تو انہوں نے کچھ دیر انتظار کر کے شور مچانا شروع کیا،جبکہ فوجی اہلکاروں نے نصراللہ کو نیم مردہ حالت میں کیمپ کے عقب سے باہر پھینک دیا۔ان کہنا تھا کہ منظور احمد کو کیمپ میں بند رکھا گیا،اوراس سلسلے میں پولیس میں شکایت بھی درج کی گئی تاہم تاہنوز ابھی تک منظور کا کوئی بھی پتہ نہیں چلا۔