ولادت:دریاباد، ضلع بارہ بنکی،یوپی۔ شعبان۱۴/ ۱۳۰۹ ھ ،مطابق ۱۶ / مارچ ۱۸۹۲ ء
وفات:لکھنؤ ،/۱۶ محرم الحرام ۱۳۹۷ ھ،مطابق ۶ / جنوری ۱۹۷۷ ء،مدفن:دریاباد، یوپی
مفسر قرآن،ادیب شہیر،مولانا عبدالماجد دریابادیؒ کا تعلق دریاباد ضلع بارہ بنکی (یوپی)کے قدوائی خاندان سے تھا۔کیننگ کالج لکھنؤ سے بی۔اے کیا،طالب علمی ہی سے مطالعے کی عادت نہیں ،لت پڑگئی تھی۔ہر قسم کا مطالعہ کرتے۔اسی زمانہ میں تشکک وارتیابیت سے لے کر الحاد ودہریت کے مرحلوں سے گزرے،پھر اللہ نے صحیح اسلام کی طرف باز گشت کی توفیق عطا فرمائی۔کالج کی زندگی ہی میں خاصی عربی سیکھ لی تھی۔مذہب کی طرف رجوع کے بعد مذہبیات میں ترقی کرتے چلے گئے۔مولانا مدنیؒ سے بیعت وادارت کا تعلق قائم کیااورحضرت تھانویؒ کی صحبت و تربیت سے فائدہ اٹھایا۔خلافت تحریک کے اسٹیج سے ملکی سیاست سے بھی گہرا تعلق رکھا ، آپ صوبہ اودھ کی خلافت کمیٹی کے صدر تھے ۔مولانا ملک کے نامی گرامی صحافیوں میں تھے۔مولانا محمد علی جوہر کے’’ہمدرد‘‘سے صحافتی زندگی کاآغازکیا،پھر’’سچ‘‘،اس کے بعد ’’صدق‘‘اور آخر میں ’’صدق جدید ‘‘ نکالا۔آپ ایک صاحب طرز ادیب تھے،بقولِ حضرت مولانا علی میا ںؒ:وہ اپنے طرز کے بانی اور خاتم ہیں۔
آپ کی مشہور کتابوں میں تفسیر قرآن (انگریزی و اردو)،تاریخ اخلاقِ یورپ(ترجمہ)،قصص و مسائل،سفر حجاز،ذکر رسول، معاصرین،محمد علی: ذاتی ڈائری کے چند ورق،حکیم الامت:نقوش وتاثرات،بشریت انبیاء،انشائے ماجد اور نشریات ماجد وغیرہ ہیں۔
حکم ملا ہے ایک رند خراباتی کو،ایک گم نام اور بد نام کو،گوشہ نشین قصباتی کو،کہ وہ بھی اہل فضل وکمال کی صف میں در آئے۔ اور اپنا فسانۂ رسوائی دنیا کو کہہ سنائے اور حکم دینے والے کون؟ایک بزرگ(مولانا سید سلیمان صاحب ندویؒ)اور ایک بزرگ صورت بزرگ سیرت خورد(مولانا علی میاںؒ)۔بہتر ہے!بزرگوں اورخوردوں کو،اگر لطف اسی داستان میں آتا ہے ،تو لیجئےتعمیل فرمائش ابھی ہوجاتی ہے، لیکن آپ حضرات سوچ سمجھ لیں،دنیا آپ کے حسن انتخاب کو کیا کہے گی ؟ ع
لو پسند آئیں ادئیں انہیں دیوانوں کی
آنکھ کھلی ایک مذہبی گھرانے میں۔باپ(اللہ ان کی تُربت ٹھنڈی رکھے)ایک اچھے سرکاری عہدیدار ہونے کے باوجودعلماً مولوی اور عملاًدیندار،ماں(اللہ ان کی عمر میں مزید برکت عطا فرمائے)شب بیدار،تہجد گزار،زمانہ انیسویں صدی عیسوی کے اخیر کا،گھر پر مشرقی تعلیم کا چلن ایک حد تک باقی تھا۔مولوی صاحب کے پا س پڑھنے بٹھائے گئے،قرآن(ناظرہ)کے ساتھ اردو بھی شروع ہوگئی۔مولوی محمد اسماعیل صاحب میرٹھی مرحوم کی ریڈریں کچھ اس طرح مزہ لے لے کر پڑھیںکہ ان کی شیرینی اب تک یاد ہے۔اور اردو ٹوٹی پھوٹی جو کچھ بھی لکھنی آگئی،اس کی بنیاد اسی وقت سے پڑ گئی۔فارسی میں گلستاں،بوستاں،رقعات قتیل،یوسف ؑزلیخا کے علاوہ کیمیائے سعادت بھی کچھ سمجھے اور زیادہ تر بے سمجھے،جوں توں ختم کرڈالی۔داخلہ اسکول میں ہوا،زبان عربی ملی،استاد ملے شفیق،عربی سے جو الجھن اور وحشت نہ ہونے پائی،تصرف ہے انہیں بزرگوں کا!
ابھی بچپن ہی تھاکہ ایک انگریزی تعلیم یافتہ چچا زاد بھائی نے شوق اخبارات کا پیدا کرادیا۔دل خارجی مطالعے میں لگنے لگا۔اخبار،رسالہ،اشتہار،کتاب،جو چھپی چیز بھی سامنے آجاتی،مجال نہ تھی کہ بچ کر نکل جائے!اردو کے علاوہ انگریزی،فارسی،عربی میں کچھ نہ کچھ شد بد تو ہو ہی گئی تھی۔فقہ،تفسیر،تاریخ،تصوف،منطق ،مناظرہ، ادب،افسانہ،ناول ، ناٹک،طب،شاعری سب ہی کچھ تو اس میں آگیا۔جوش خاصا مذہبی موجود تھا۔آریوں اور عیسائیوں کی مناظرانہ کتابوں پر نظر پڑی،ایک آگ ہی لگ گئی،تلاش جوابات کی ہوئی،دُھن ہی سوار ہوگئی۔مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کی’’ ترک اسلام‘‘ وغیرہ،مرزاغلام احمد قادیانی کی’’ سرمۂ چشم آریہ‘‘ وغیرہ،حکیم نورالدین کی’’نورالدین‘‘،مولانامحمد علی مونگیری ناظم ندوہ کا ماہنامہ ’’تحفۂ محمدیہؐ ‘‘ اسی دور کی یادگاریں ہیں۔اور ہاں ایک نام تو ذہن سے نکلا ہی نہیں جاتا،اب وہ بے چارے یوں ہی گمنام ہو گئے ہیں،مولوی احسان اللہ عباسی وکیل گورکھپور،مصنف ’’الاسلام‘‘،’’تاریخ الاسلام‘‘ وغیرہ ذوق شوق سے ساری کتابیں پڑھیں،اور اپنی بساط کے مطابق کچھ لکھا لکھایابھی۔ادبی میدان میں شررؔ مرحوم اور ان کے معاصرین منشی سجاد حسین ایڈیٹر ’’اودھ پنچ ‘‘وغیرہ کا دور دورہ رہا۔
یہ دور کہنا چاہئے کہ۱۹۰۳ ء سے ۱۹۰۷ ء تک رہا۔۱۹۰۷ ء میں نیاز’’مقالات ِشبلی‘‘اور ’’الکلام‘‘سے حاصل ہوا۔اور اسی دم سے جادو مولانا شبلی کا چل گیا۔تلاش ان کی اور تحریرو ںکی شروع ہوئی،انہیں پڑھتا نہ تھا ،تلاوت کرتا تھا۔’’الندوہ‘‘والد مرحوم کے نام جاری کرایا،پرانا پرچہ سناتا،تازہ پرچے کے لئے دن گنا کرتا۔مولانا کے ہر مضمون کی ایک ایک سطر بار بار پڑھتا،فقرے کے فقرے حفظ ہوگئے،ترکیبیں زبان پر چڑھ گئیں،ہم سِنوں سے کہتا پھرتابلکہ لڑتا پھرتاکہ علامہ شبلی ؒاس دور کے مجدد ہیں۔نذیرؔ،حالیؔ،سرسیدؔ،آزادؔ،کے ساتھ بھی حسنِ اعتقاد قائم رہا۔سنہ ۱۹۰۸ ء میں عمر کا سولہواں سال تھاکہ میٹرک پاس کرلکھنؤ میں کالج میں داخل ہوا،اور اب انگریزی کتابوں پر ٹوٹ پڑا۔اتفاق سے شروع ہی میں ایک بڑے انگریزی ڈاکٹر کی کتاب سامنے آگئی،ظالم نے کھل کر اور بڑے زور دار الفاظ میں مادیت کی حمایت اور مذہب و اخلاق دونوں سے بغاوت کی تھی۔موضوع یہ تھا کہ عصمت اور نیک چلنی کے کوئی معنی نہیں،محض پرانے لوگوں کا گڑھا ہوا ڈھکوسلہ ہے۔اصل شئے صحت اور مادی راحت ہے،صحت کا خیا ل رکھ کر جوکچھ جی میں آئے کرو،نکاح وغیرہ کی قیدیں سب لایعنی ہیں۔مصنف کے پیش نظر اسلام یقیناً نہ تھا،لیکن زد تو بہرحال اسلام پر پڑتی ہی تھی۔خیالات ڈانواں ڈول ہونے لگے،وہ اس زمانے میں اتفاق سے ایک اور کتاب بھی نظر سے گزری،یہ ادبی تھی،مشاہیر عالم کے اقوال وخیالات پر اس میں ایک جگہ پورے قد کی تصویر( نعوذباللہ ) صفحہ بھر پر رسول اللہﷺ کی در ج تھی اور نیچے سند یہ بھی تھی کہ فلاں(غالباً رومہ)کے میوزیم میں قلمی تصویر موجود ہے۔۔۔مغربیت سے مرعوب دماغ کے لئے اب شک وشبہ کی گنجائش ہی کہاں باقی رہ گئی تھی!!دماغ پہلے ہی مفلوج ہوچکا تھا،اب دل بھی مجروح ہوگیا۔ارتداد دبے پاؤں آیا،اسلامیت کو مٹا،ایمان کو ہٹا،خود مسلط ہوگیا۔آریت،مسیحیت،دوسرے مذاہب سے دل پہلے ہی ہٹا ہوا تھا۔اب کھلم کھلا آزادی اور آزاد خیالی کی حکومت قائم ہوگئی۔الحاد کا نشہ،بے دینی کی ترنگ،’’ریشنلزم‘‘(عقلیت)سے پینگ بڑھے،’’ایگناسیئسزم‘‘(لاادریت)سے یارانہ گھنٹا،لندن کی ریشنلسٹ ایسوسی ایشن (انجمن عقلیتیں)کی ممبری قبول کر،سارا وقت ہیوم،مل،اسپنسر،ربی،ہکسلے،ہیگل،رنگ سول،بریڈلا،یوشنز،ڈارون اور یونان کے حکماء مادیین،متشککین وغیرہ کی نذر ہونے لگا۔مل کو اتنا پڑھا، اتنا پڑھا کہ لڑکوں میں مل کا حافظ مشہور ہوگیا۔ایک اور کتاب طب سے متعلق عضویات دماغی(mental phsychology)پر ایک مشہور انگریزی ڈاکٹر کی اس زمانے میں نظر سے گزری۔ذکر امراض عصبی ودماغی کا تھا،بدبخت نے مرض صرع کے ضمن میں لکھا تھاکہ اس کی علامات کو پرانے زمانے میں لوگ’’وحی الہی‘‘ سمجھنے لگتے تھے، وقس علیٰ ہذا۔ارتداد،الحاداور اسلام بیزاری میں اگر کچھ کسر باقی تھی تو اب پوری ہوگئی۔ایف۔اے کے امتحان کی فیس جانے لگی تو فارم میں جہاں مذہب کاخانہ ہوتا ہے تو وہاں بجائے مسلمان کے ’’ریشنلسٹ‘‘ لکھ دیا!الحاد،بے دینی کا یا عقلیت کا یہ دور کوئی ۸۔۱۰ سال تک قائم رہا۔ایف۔اے ،بی۔اے کی تکمیل ہوئی،ایم۔اے کی تکمیل نہ ہوئی،لیکن تعلیم تو بہر حال فلسفہ لے کر پائی۔مضمون نگاری،تصنیف، تالیف،اردو،انگریزی دونوں زبانوں میں جاری رہی۔ہوتے ہوتے ۱۹۱۸ ء آگیا،آخر سال تھاکہ ایک دوست کی تحریک پر انگریزی میںبودھ مذہب پر کتابیں دیکھیںاور دل کسی قدر اُدھر مائل ہوا،معاً بعد ہندو فلسفے کا مطالعہ شروع ہوگیا۔خصوصاً مسز بسنٹ اور بنارس کے مشہور فلسفی ڈاکٹر بھگوان داس کے انگریزی تراجم وتالیفات کے ذریعے سے مغربیت ،مادیت اور عقلیت کا جو تیز نشہ سوار تھا ،وہ بتدریج کم ہونے لگااور اس کا قائل ہوگیا کہ مادی اور حسی دنیا کے علاوہ بھی کسی اور عالم کا وجود ہے ضرور!بھگوت گیتا کاا نگریزی ایڈیشن (مسز بسنٹ کا ترجمہ)اس حیثیت سے اکسیر ثابت ہوا ۔خدا کا نام اب قابل مضحکہ نہ رہا،’’روح اور روحانیت‘‘کے الفاظ سے نفرت و بیزاری دور ہوگئی،ہاں اسی درمیان میں مولانا شبلی کی سیرۃ النبی ؐکی جلد اول شائع ہو چکی تھی،اسے خوب غور سے پڑھا تھااور اس سے بھی ایسا اثر قبول کیا تھا۔صاحب سیرت کی رسالت پر ایمان تو اب بھی دور کی چیز تھی،لیکن مارگویس وغیرہ کے اثر سے(نعوذباللہ)جو ایک خدااور سردار کا تصور قائم ہوگیا تھا،آنکھوں سے یہ زنگ اسی سیرت کے مطالعے کی برکت سے کٹ چکا تھااور اس کی جگہ ایک خوش نیت مصلحِ قوم نے لے لی تھی۔