بادی النظر میں وہ ایک مُناسب بندہ ہی نظر آتا تھا ۔ ماشااللہ چہرہ اِتنا معصوم اور خُوبصورت تھا کہ بس دیکھتے ہی بنتا تھا ۔ خوش دہن تھا ، خوش لہن اور خوش طبع بھی ۔ گویائی ایسی کہ منہ سے پھُول جھڑتے تھے ۔۔۔۔۔ ایک اکیلا ، آ گے کوئی نا پیچھے ۔ اپنی دُھن میں مست ، شاد و شادماں ۔ لا پرواہ اور بے فکرا سا ۔ پچیس سال کی عمر کے لگ بھگ کا ایک بانکا نوجوان تھا ۔ نام تاشف الدین تبریزی ۔ کام ، ہاتھ کی صفائی ، وہ بھی مہارت اور بڑے کمال کی ۔ تبریزی جیسا خوب رو نوجوان ایک مشاق اٹھائی گیرا ہوسکتا ہے ، یہ بعید از قیاس تھا ۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ، کیونکہ اُس کا چہرہ اتنا دلکش اور صُورت اتنی مسمسی اور معصُوم تھی کہ ایسا خیال ذہن میں لانا بھی گُناہ تھا ۔ مگر وہ ایک مشاق اٹھائی گیرا تھا ۔ یہ ایک حقیقت تھی جو وہ فقط خود جانتا تھا ، کوئی دیگرے نہیں ۔ اِتنا مشاق تھا کہ کِسی کی آنکھوں سے سرمہ چرُائے تو آنکھوں کی پُتلیوں کو بھی اس کی ہوا لگنے نہیں دیتا تھا ۔ بڑی ہوشیاری سے دن بھر لوگوں کی جیبیں صاف کرتا تھا اور اپنی گُزر بسر کرتا تھا ۔
غریب کاریگروں کی ایک بستی " کاریگاوں " میں ایک چھوٹی سی کھولی میں رہتا تھا ۔ یہ بستی شہر کے جنوب میں واقع تھی جہاں شہر کے ماہر اور محنت کش کاریگروں کا رین بسیرا تھا ۔ یہاں کاریگروں کی ایک اچھی خاصی تعداد آباد تھی جو وُوڈ کارونگ سےلے کر تانبے اور پیتل پر تک کا نقش و نگاری کا کام کرتے تھے ۔ ہُنر مند تھے اور اپنے کام میں خاصے ماہر بھی ۔ شہر میں قائم ایسے ہی قِسم کے کارخانوں میں کام کرتے تھے اور اپنی گُزر بسر کرتے تھے ۔
تبریزی مگر بڑا پُر اسرار تھا ۔ صُبح صُبح گھر سے نکل کر روانہ ہوتا تھا پھر سر شام ہی گھر لوٹتا تھا ۔ کون تھا ؟ کہاں سے آیا تھا ؟ کہاں آتا ہے، کہاں جاتا ہے ؟ یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ اچھا لڑکا ہے ۔ خوش اخلاق ہے ، مِلنسار ہے ۔ کہیں نوکری کرتا ہے ۔ کام دھندہ کرتا ہے ، محنت مزدوری کرتا ہے ، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔ کاریگاوں کی بستی کے لوگوں کا کچھ یہی خیال تھا ۔ یہاں ویسے بھی لوگوں کو تاک جھانک کرنے کی فرصت نہیں تھی ۔ محنت کش لوگ تھے ، اپنے کام دھندے میں لگے رہتے تھے ۔
تبریزی کا دھندہ مگر آجکل کافی مندا چل رہا تھا ۔ جب سے بینک کاری میں اے ٹی ایم کی سہولیات متعارف ہوئی تھیں لوگوں نے اپنی جیبوں کو ہلکا رکھنا شروع کردیا تھا ۔ لوگ اب جیبوں میں موٹی موٹی رقوم لئے نہیں پھرتے تھے بلکہ خریداری کے دوران بھی اے ٹی ایم کا ہی استعمال کرتے تھے ۔ اس سے جیب کتروں کا دھندہ ماند پڑ گیا تھا ۔ آمدن میں بڑی مندی آگئی تھی اور دھندہ چرمرا گیا تھا ۔ تبریزی مگر اب ایک نئی حکمت عملی کے تحت اپنا دھندہ چلا رہا تھا ۔ وہ مختلف علاقوں میں قائم ، اے ٹی ایم کی اغل بغل میں رہ کر اے ٹی ایم کے اندر آنے جانے والے گراہکوں کی ٹوہ میں رہتا تھا اور اندازہ لگا کر ان کے باہر آتے ہی ان کا تعاقب کرکے ان لوگوں کی جیبیں ہلکی کرتا تھا ۔ کہیں بس میں تو کہیں لوکل ٹرین میں بڑی مہارت سے قینچی چلاتا تھا ۔ بڑا ماہر تھا ، مگر دل کا بُرا بھی نہیں تھا ، لوگوں کی مدد و معاونت اور کفالت بھی کرتا تھا ۔
موسم خوشگوار تھا مگر دھندا مندا ۔ تبریزی مہر باغ کے بڑے پبلک پارک کے ایک سنسان کونے میں بینچ پر بیٹھا دن بھر کی کمائی گِن رہا تھا ۔ کُل ملا کر آج اس نے چھ پاکٹ مارے تھے ۔ اب وہ بڑی احتیاط اور رازداری سے دن بھر مارے گئے بٹووں میں سے رقم نکال کر انہیں خالی کر رہا تھا ۔ ہلکے پرس تھے سو رقم بھی زیادہ نہیں تھی ۔ مگر اتنی رقم تو تھی ہی کہ گھر کا چولہا چوکھا جل جاتا ۔ اچانک وہ ایک پرس چیک کرتا ہوا چونک پڑا ۔ پرس میں پیسہ کم اور کاغذات کا پلندہ کچھ زیادہ تھا ۔ تین سو روپے کی ایک چھوٹی سی رقم تھی اور چھوٹی چھوٹی کاغذات کی پرچیوں کا ایک چھوٹا سا پلندہ بھی ۔ تبریزی نے جلدی جلدی کاغذ کا یہ پلندہ کھول دیا جبھی حیرت سے اس کے دیدے پھیل گئے ۔ لا حول ولا قوۃ ۔۔۔۔ اچانک وہ ایک گہری سانس لے کر ہڑبڑایا ۔
کسی مریضہ کے ڈاکٹری نسخے تھے جو شیکھر نگر کے سرکاری اسپتال کے بیڈ نمبر بائیس اور وارڈ نمبر ۸ میں داخل تھی ۔ نُسخوں کے ساتھ مریضہ کا اسپتالی داخلہ کارڈ بھی نتھی تھا ۔ کارڈ میں مریضہ کا پُورا اتہ پتہ موجود تھا اور بیماری کی کیفیات کا اندراج بھی ۔ مریضہ کا نام دُمل رانی تھا جو شہر کے نیل گھاٹ علاقے کی رہنے والی تھی اور کینسر کے موذی عارضہ میں مبتلا تھی ۔ یہ اِتفاق اور انکشاف اتنا غیر متوقع اور بدمزہ تھا کہ تبریزی کے ہوش اُڑ گئے ۔ اس کے پسینے چھوٹ گئے اور ہاتھ پیر جیسے پھول گئے ۔ اچانک درد کی ایک تیز لہر اس کے پورے جسم میں سرایئت کر گئی ۔
" اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ میں نے کیا کردیا ۔؟" وہ اپنا ماتھا پیٹنے لگا ۔
" یہ تو کِسی کینسر مریضہ ، جو یقینا" بڑی تکلیف میں ہے ، کے نُسخے اور دوائیوں کے پیسے ہیں ۔
" اُوف ۔۔۔۔ ۔" اُس کا دل زور سے دھڑکنے لگا ۔ اچانک اُسے یاد آیا کہ اُس نے بس میں سفر کررہی ایک جواں سال دوشیزہ کا پرس اُڑایا تھا جو کافی پریشان تھی اور خاصی بدحواس بھی ۔
تبریزی کا دل دھک سے رہ گیا ۔ وہ مچل اُٹھا ۔ اچانک اُس کے بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی ۔ سامنے اندھیرا سا چھا گیا ۔ اُس کا سر چکرانے لگا ۔ وہ تڑپ اُٹھا اور اچانک اپنا سر تھام کر اور بینچ سے اُتر کر زمین پر بیٹھ گیا ۔ اب اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔
شام ہونے کو تھی ، سُورج غرب کی پہاڑیوں کو چُھو رہا تھا ۔ اُفق میں سُرخی بکھر رہی تھی ۔ سورج اب جیسے تھکا ماندہ غرب کی پہاڑیوں کی اوٹ میں ڈوب رہا تھا ۔ اُدھر پرندے آسمان میں اُڑتے ہوئے اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف محوِ پرواز تھے اور ادھر تبریزی کے قدم تیزی سے شیکھر نگر کے سرکاری اسپتال کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ وہ بڑا پریشان تھا ۔ بار بار اپنے خُشک ہونٹوں پر اپنی زبان پھیر رہا تھا مگر تھا کہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا ۔ اب وہ اپنی منزل کے قریب تھا اور کسی بھی وقت اسپتال میں داخل ہوسکتا تھا ۔
شیکھر نگر کے اس سرکاری اسپتال کی حالت ناگفتہ بہہ تھی ۔ پُرانی عمارت تھی جس کا فرش جگہ جگہ سے اُکھڑا ہوا تھا۔ عمارت مانو اپنی زندگی کے آخری پڑاو پر تھی اور اُکھڑی اُکھڑی سانسیں لے رہی تھی ۔ تبریزی اسپتال میں داخل ہوا تو حبس اور تعفن کے پھبکوں نے اسے کافی بدمزہ کردیا ۔ اس کا دم گھُٹنے لگا اور سانس لینا دشوار ہوگیا ، یہ تبریزی کا اسپتال میں آنے کا پہلا تجربہ تھا ۔ یہاں کافی بھیڑ اور دھکم پیل تھی ۔ شور شرابا بھی تھا جو بڑا عجیب لگ رہا تھا ۔ وہ بڑی تیزی سے وارڈ نمبر ۸ میں داخل ہوا اور بیڈ نمبر ۲۲ کی جستجوئے تلاش میں جُٹ گیا ۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد اُسے بیڈ نمبر ۲۲ نظر آگیا، جو وارڈ نمبر ۸ کے آخری کنارے پر تھا ۔ وہ تیز تیز قدموں کے ساتھ بیڈ نمبر ۲۲ کے قریب پہنچا ، جبھی اس کے پیروں تلے کا فرش جیسے سرک گیا ۔
سامنے کا منظر دل دہلا دینے والا تھا۔ مریضہ دُمل رانی بیڈ پر لیٹی گہری گہری سانسیں لے رہی تھی ۔ پاس میں کھڑے چند ڈاکٹر صاحبان مریضہ کا چیک اَپ کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ طبی عملے کے چند لوگ بھی تھے ۔ مریضہ کے سرہانے اسے وہ لڑکی بھی کھڑی نظر آئی جسے اس نے بس میں پریشان حال دیکھا تھا اور جس کا اُس نے پرس بھی اُڑایا تھا ۔ وہ اب بھی خاصی پریشان تھی ۔ اس کی آنکھیں متورم تھیں ، شاید بہت روتی رہی ہو یا راتوں جاگتی بھی رہی ہو ، کیونکہ اُس کے بال اُلجھے ہوئے تھے ۔ لب خُشک اور آنکھیں ویران لگ رہی تھیں ۔ وہ مریضہ کا سر سہلا رہی تھی ۔ مریضہ درد کی شدت سے تڑپ رہی تھی اور ایڑیاں رگڑ رہی تھی ۔ ڈاکٹر لوگ بھی خاصے مُضطرب تھے اور مریضہ کے چیک اپ میں لگے ہوئے تھے ۔ تبریزی کا دل دھک سے رہ گیا ، کیونکہ مریضہ کی حالت بہت زیادہ خراب تھی ۔ اُس کی سانسیں اُکھڑی اُکھڑی سی چل رہی تھیں ۔ وہ آنکھیں بند کئے ہوئی ایڑیاں رگڑ رہی تھی ۔ بیچ بیچ میں دھیرے دھیرے اپنی آنکھیں کھولنے کی بھی سعی کررہی تھی ۔ تبریزی کو لگا کہ جیسے وہ اسے ہی دیکھنے کی کوشش کر رہی ہے اور کہہ رہی ہے ۔
" واہ بیٹے واہ ، تجھے ہاتھ مارنے کو میری ہی بیٹی ملی تھی کیا ۔؟ میں تو ویسے بھی مرنے والی ہوں ۔ تم نے یہ کیا کِیا ۔؟ میری بیٹی کی سادگی اور پریشانی کا یہ فائیدہ اُٹھایا ۔ تم میرے بیٹے جیسے ہو ۔ تم نے مجھے جیتے جی مار ڈالا ۔" وہ جیسے بڑے کمزور لہجے میں بولی ۔ تبریزی ہل سا گیا ۔ وہ تڑپ اُٹھا ، تبھی دُمل رانی درد کی شدت سے جیسے مچل اُٹھی وہ کراہتی ہوئی پھر بولی ۔
" آہہہ ہ ۔۔ہ۔۔ ہ شکل سے چور تو نہیں لگتے ۔ بڑے بھولے بنتے پھرتے ہو ۔ اُوف ۔۔۔۔ تم کتنے معصوم دِکھتے ہو ۔ مگر کِتنے ظالم ہو ۔۔۔ نہیں جانتے کہ کینسر کے مریض زیادہ دیر بچتے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہے رام ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔" اُس کی آنکھیں جیسے چھلک آئیں ۔ وہ جیسے اپنے اندر کے درد کو دبانے کی کوشش کرنے لگی ۔ جبھی وہ پھر گویا ہوئی ۔
" جانتے ہو ۔۔۔۔۔ میری بے کس بیٹی نے اپنے کانوں کے آویزے بیچ کر میری دوائی کےلئے یہ روپے جوڑے تھے ۔ اس اُمید کے ساتھ کہ شاید اُس کی ماں بچ جائے اور زندگی کی پٹری پر واپس چلی آئے ۔ تم نے تو ایک ہی جھٹکے میں اُس کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ۔"
وہ بولی تو تبریزی جیسے زمین میں گڑھ گیا ۔ اُس نے ہڑبڑا کر پاس کھڑی لڑکی کے کانوں کی طرف دیکھا ، جبھی وہ درد کی شدت سے بلبلا اُٹھا کیونکہ لڑکی کے کانوں میں آویزے ندارد تھے ۔ اچانک اُس کے پورے بدن میں جیسے درد کی ایک لہر سی دوڑ گئی ۔ وہ فرطِ عِلت سے تڑپ اُٹھا ۔
جبھی اُس نے مُضطرب ہوکر آگے بڑھتے ہوئے اور اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ میں تھمے ہوئے دوائیوں کے ایک پیکٹ کو کہ جس میں مریضہ کے نُسخے ، انجکشن، دوائیاں وغیرہ شامل تھے ایک ڈاکٹر کے طرف بڑھادیا ۔
" ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔ یہ دیکھئے دوائیاں ۔ میں ساری دوائیاں لے کر آیا ہوں ۔ " تبریزی مضطربانہ انداز میں بولا ، ایسے جیسے ان دوائیوں کی اشد ضرورت ہو اور ان کے آتے ہی مریضہ ٹھیک بھی ہوجائے گی ۔
" ایک منٹ ۔" ڈاکٹر نے جوابا" کہا اور اسے دوائیاں اپنے پاس ہی رکھنے کا اشارہ کیا ۔ جبھی مریضہ کے سرہانے کھڑی لڑکی حیران نظروں سے تبریزی کی طرف دیکھنے لگی ۔ وہ کچھ پریشان سی ہوگئی اور اب تبریزی کو جیسے پہچاننے کی کوشش بھی کر نے لگی ۔ معاً بیڈ پر تڑپتی ہوئی مریضہ دُمل رانی اچانک ساکت و جامد ہوگئی ، تبھی سبھی لوگوں کی سانسیں بھی جیسے رُک گئیں ۔ سارے لوگ دم بخود ہوگئے ۔ اب مریضہ بے حس و حرکت تھی ۔ جبھی پاس کھڑے ایک ڈاکٹر نے پریشان ہوکر جلدی جلدی مریضہ کی بنض ٹٹولی ۔
" اوہ نو ۔" کہتے ہوئے اُس نے ایک لمبی سرد آہ کھینچی۔
" کیا ہوا ڈاکٹر صاحب ۔؟ تبریزی گھبرا کر بولا ۔
" شِی از نو مور ۔ مریضہ اب نہیں رہی ۔"
" نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ں ۔۔ ں ۔۔۔۔۔ ں ۔۔۔۔۔ ۔ " جبھی مریضہ کے سرہانے کھڑی لڑکی اس قدر زور سے چیخی کہ پورا اسپتال جیسے لرز اُٹھا ۔ چیخ اس قدر بھیانک اور دردناک تھی کہ پورا وارڈ دہشت زدہ ہو گیا اور ہر دانگ ارتعاش پھیل گیا ۔ اچانک تبریزی کے ہاتھ میں تھما ہوا دوائیوں کا بڑا پیکٹ اس کے ہاتھ سے چھوٹتا اور پھِسلتا ہوا چٹاخ کی آواز کے ساتھ فرش پر گر گیا ۔ پیکٹ میں موجود انجکشن اور دوائیاں ٹوٹ کر بکھر گئیں ۔ انجکشن کی کرچیاں ہوا میں تیرتی ہوئیں فرش پر دوُر دُرو تک پھیل گئیں ۔ تبریزی خوفزدہ نظروں سے چیختی چلاتی سوگوار لڑکی کی طرف دیکھنے لگا ، ایسے جیسے وہ اُس کا گناہگار ہو ۔ اُس کا مُجرم ہو اور اس کی ماں کی موت کا ذمہ دار ہو ۔
" نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔" وہ اچانک پاگلوں کی طرح چیخا اور اپنا سر تھام کر نیچے بیٹھ گیا ۔
بڑی دردناک چیخ تھی جو ہر دانگ پھیل گئی ۔ اب وہ چیخے چلائے جارہا تھا ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا ۔
���
سری نگر ،موبائل نمبر؛9622900678