شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ سرخ روئی مانگ لی تھی رو سیاہی دے گیا۔جب چوہدری لال سنگھ کی چودھراہٹ ختم کی گئی ، لال چہرے پر کالی پرت پوت دی گئی اور چندر پرکاش کی گنگا الٹی بہنے لگی تو اپنے قلم دوات والے نیا فتویٰ لکھنے لگے کہ یہ کالک اصل میں ہماری دوات میں تھی کہ جس نے برا منایا اس کے چہرے پر اُلٹ دی اور پھر سینہ ٹھوک کر کہا کہ ہم بھی چھپن انچ کی چھاتی رکھتے ہیں جس کے جملہ حقوق مودی مہاراج کے ہاں محفوظ نہیں بلکہ اس میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے کیونکہ یہ ایجنڈا آف الائینس میں باضابط درج ہے اور ہم ہیں کہ مخلوط سرکار چلا رہے ہیں یعنی جرم و گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ویسے ہم نے ایجنڈا کی کاپی دکھانے پر زور نہیں دیا کہ ہر کسی کو Face savingکا موقع دینا اچھا رہتا ہے۔ایسے میں کنول برداروں نے اپریل کے آخری دن اپریل فول بنانے کا نیا ریکارڈ بنا ڈالاکہ کٹھوعہ عصمت دری و قتل معاملے میں عیب داروں کے حق میں عذرِ لنگ تراشنے والوں کو مسند اقتدار پر بٹھایا یعنی مفتی وژن کاکنیادان کیا ۔وہ جو جرم سنگین اور خون سے رنگین ملزمان کے لئے ہندو منچ سچ کے خلاف اور جھوٹ کے حق میں جسروٹیا سے نعرے لگوا رہا تھا اسے بھی مرد مومن میموریل ایوارڈ لاڈلی بیٹی کے ہاتھوں ملا ، اسے کشمیری محاورے میں کہتے ہیںکہ لعنت و ملامت کے شب دیگ میں سے ایک کٹوری ادھر بھی آئے تو کیا کہنے۔ وہ جو شرما جی بادل گرجنے ، گاڑیوں کے دھویں، مچھر کی بیں بیں، گائے کی جگالی اور گدھے کی ڈھینچوں ڈھینچوں کا الزام بھی لٹے پٹے روہنگیاؤں پر لگاتا ہے، اُس کا بھی کچھ بڑی اُجرت کاحق بنتا تھا ،سو اُسے کرسی ٔ وزارت پر بٹھاکرقطبین کی امارت سونپ دی گئی۔نرمل کی کرسی کوملتا سے کھینچ کر کویندر کے حوالے کردی۔بڑی کرسی پر بیٹھتے ہی اسے معصوم ومقتول بچی کی ہمالیہ جیسی مصیبت بالکل چھوٹی بات نظر آئی ۔شاید یہی کہ بڑے بڑے شہروں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔اب تو ہم سوچتے ہیں کہ بانوئے کشمیر اور قلم برداروں کے پاس کوئی اور بہانہ رہہ گیاکیا کہ اپنی ندامت و ملامت چھپا سکیں ؎
گندگی تو جسم کی تم دھوتے ہو صابون سے
جو غلاظت دل میں ہے وہ دور ہو گی کس طرح
ملک کشمیر کے روح روانو!حرمت ِکشمیر کے پاسبانو!با ادب با ملاحظہ ہوشیار!تشریف لا رہے ہیں افرا سیاب دوران،ستم ہائے غریبان، آسیب خورد و کلان، بلا عزت و احترام دربار صاحب ،جو مو کر گئے ہیں بلکہ سالہا سال سے مو کرتے رہے ہیں اور غریب عوام کی چھاتی پر مونگ دلنے ،ان کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر ،عیش و آرام کی پوٹلیاں باندھے، اختیار و اقتدار کی بلائیں سمیٹیں ،جھنڈوں اور ڈندوں سمیت، لال بتیوں کا جلوس اکٹھا کر کے ملک کشمیر پدھار رہے ہیں۔سردی کے خوف سے بانہال پار ڈیرہ جو ڈالا تھا اسے دوبارہ باندھ کر گرمی کی تپش برداشت نہ کرتے سہانی دھوپ اور حسین نظاروں کا لطف لینے واپس بانہال کے اس پار قوم کے غم میں ڈنر کا مزہ لینے وارد کشمیر ہو رہے ہیں۔اسی لئے ملک کشمیر کی سڑکوں پر رنگ و روغن چڑھ رہا ہے۔ مانا کہ اہل دربار کا دل صاف و پاک نہیں لیکن سڑکوں کے کناروں کو اس طرح صابن شیمپو مل کر گند ہٹائی جا رہی ہے کہ عوام الناس کی قمیض بھی اتنی صاف نہیں دُلی ہوتی۔کھڑوں میں کنکر تارکول بچھ رہا ہے،تاکہ یہ جو اتنی دیر عوام الناس کے انجر پنجر ڈھیلے کئے جا رہے ہیں ان کا منہ بھی کالا ہو۔پلوں کے ریلنگ پر سفیدی ملی جا رہی ہے یا یوں کہیے کہ چونا لگا یا جا رہا ہے۔ سڑکوں کے بیچ کہیں کہیں لگے پیڑوں کی گرد جھاڑ جھاڑ کر اتاری جا رہی ہے حالانکہ اتنی دیر یہاں نرم و نازک کھلتے گلابوں کی بانس کے ڈنڈوں اور بندوق کے بٹوں سے دھول جھاڑی گئی۔ سڑکوں کے درمیان فولادی جنگلوں کا زنگ اٹھایا جارہا ہے ۔ بجلی کے قمقموں کو پیار سے ناپا تولا جاتا ہے، بڑی سی اونچی سی گاڑی لے کر صاف کیا جاتا ہے اور جو کنکشن کئی مہینوں سے کٹ گئے تھے انہیں دوبارہ جوڑا جاتا ہے تاکہ دربار کا کوئی کنکشن پُھس نہ ہوجائے۔ در و دیوار روشن کئے جاتے ہیں کہ کہیں دربار صاحب کی آنکھیں کوئی برا خواب نہ دیکھیں جب کہ کھلتے پھولوں کی آنکھوں پر یلغار کرکے ان سے بینائی چھینی گئی۔ ارے بھائی! ان کا خواب تو اپنا ہے وہ بھلا برا کیوں دیکھیں اس کے لئے عوام الناس موجود ہے۔اسی لئے تو دفتر دفتر افسر افسر انتظامات کو حتمی شکل دے رہا ہے کہ کہیں دربار صاحب کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔دربار صاحب کے لئے رہنے کی جگہ، گھومنے کی جگہ، دندناتے پھرنے کی جگہ پر نئی لیپا پوتی ہو تی ہے ، کہیں رنگ و روغن سے مزین کیا جاتا ہے کہیں خوش آمدید کے لئے بینر آویزان ہیں کہ کہیں شاہی دربار کے آئو بھگت میں کوئی کمی نہ رہے ؎
تم ہی سے قائم بجٹ کا خسارا
لہو پی لو غریبوں کا سارا
اے مطلب کے زندہ نشانو
سارے فنڈز تمہارے لئے ہیں
کمی رہ گئی تو ہم ذمہ دار نہیں۔دفتر دفتر افسر افسر کی کرسیاں اس بات پر ٹکی ہیں کہ دربار صاحب خوش و خرم ملک کشمیر میں پہنچے اور یہاں کوئی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اتنا ہی نہیں وہ جو ریڑھی بان ، چھاپڑی فروش سڑک کیا گلی کیا، فٹ پاتھ کیا، بیت الخلا ء کا پائدان کیا، دوکان کا تھرہ کیا، لال چوک کا اڈہ کیا ،کالج کا گیٹ کیا، عاشقوں کا ڈیٹ کیا غرض سانس کی نلی تک اپنے نام انتقال کروا بیٹھے تھے ،ان سے قبضہ ہٹایا گیا کہ اب کی بار مفتی سرکار میں یہ حرکتیں معاف نہیں ۔ وہ تو ۲۰۱۶ء میں ہڑتالی مجمع کا توڑ کرنے کے لئے تمہارے حق میں عارضی حقوق کا پٹہ محفوظ کیا گیا تھا اور تب تو اپنے سیاسی مشٹنڈے نہ جانے کہاں کہاں منہ چھپائے بیٹھے تھے لیکن ابھی تو وہ دن میں رات میں، خاموشی میں بات میں،بولی میں گولی میں ہر جگہ دِکھیں گے ، اس لئے راستہ کھلا ہونا چاہئے تاکہ وہ دندناتے پھر پائیں ؎
لوگو مجھے سلام کرو میں وزیر ہوں
گردن کے ساتھ تم بھی جھکو میں وزیر ہوں
تم ہاتھوں ہاتھ لو مجھے دورہ پہ جب
موٹر کے ساتھ ساتھ چلو میں وزیر ہوں
مانا کہ جمہوری تماشے میں عوام الناس سرداری کا حق رکھتا ہے لیکن کسے نہیں معلوم کہ عوام تو ویسے ہی ہانکنے کے لئے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی سرداری دربار صاحب کے یہاں بلا عوض اجرت تفویض کر رکھی ہے۔اس لئے میاں دربار جو چاہے سو آپ کرے ہم کو عبث بدنام کیا۔دربار کے ہاتھوں میں طاقت ہے، معیشت ہے، اقتدار ہے، اختیار ہے،روزگار ہے غرض جو کچھ ڈھونڈو وہ تو دربار کے چوکھٹ کی لونڈی ہے۔ اسی لئے اس کے استقبال کے لئے بینڈ ہے باجا ہے کیونکہ یہی تو راج تاج کرنے والا راجہ ہے۔دربار کے پاس اتنا سب کچھ ہے کہ وہ بانہال کے آرپار لانے لے جانے میں تین تین دن ٹریفک بند کرنا پڑتا ہے کہ بڑے بڑے ٹرنکوں کے اندر جو فائیلیں ہیں ۔فائل کیا ہے لائف ہے اور جنہیں سرینگر میں پیش کرو یا جموں میں پیش کرو کی گردان لکھی جاتی ہے تاکہ لوگ امید باندھے رکھیں کہ امید پر دنیا قائم ہے اور اگر عوام الناس کی امید ٹوٹی تو ان کی سانس رک جائے گی اور اگر عوام کی سانس رکی تو حکومت کس پر چلائی جائے گی؟ظاہر ہے سینے کے اندر دھونکنی چلنی چاہئے دھک دھک ، جبھی تو دربار کے عیش عشرت قائم رہیں گے۔ویسے اس میں شکایت کس بات کی کہ راجہ اور پرجا میں یہی تو فرق ہوتا ہے۔اتنی دیر یہاں ملک کشمیر میں پرجا بستی تھی کہ انہیں عادت ہو گئی ہے۔گرد سے اَٹی سڑکوں، کھڈوں بھری راہ داریوں، گند سے بری نالیوں ، بلا روشنی کے قمقموں کے درمیان عبور و مرور اور اگر انہیں صاف راستوں پر چلایا جائے تو کوئی تعجب نہیں کہ انہیں زکام ہو جائے۔اسی لئے اب جو راجہ پدھارے ہیں تو صاف صفائی واجب بنتی ہے۔
دروغ بر گردن راوی جس نے یہ افواہ پھیلائی کہ جمہوری تماشے میں جو کل تک ساتھ دیتے تھے وہی اچانک منہ پھیر لیتے ہیںاور چونکہ ہم ملک کشمیر کے باسی ہیں، اس لئے افواہوں کو پسند بھی کرتے ہیں بلکہ انہی پر جیتے ہیں کہ افواہیں ہمیں بہت بھاتی ہیں ۔ہم زبان کے چٹخارے لے لے کر افواہیں سنتے ہیں ، ہضم کرتے ہیں اور اس وقت ہمیں ہاضمولا کی بالکل ضرورت نہیں پڑتی یعنی جو منہ کی خوشبو سونگھ لیتے ہیں وہی بدبو کا الزام دیتے ہیں۔اصل بات تو قیمت کی ہوتی ہے کوئی ضمیر کے عوض بکتا ہے کوئی گھوڑے گدھے کے بھائو بکتا ہے ؎
جمہوریت اک طرز حکومت ہے جس میں
گھوڑوں کی طرح بکتے ہیں انسان وغیرہ
یہ اور بات ہے کہ دربار موو کے ساتھ اس بار سرکار کے سیاسی ایوانوں میں زلزلہ محسوس ہو رہا ہے۔کرسی جانے کا زلزلہ، حکومت ٹوٹ جانے کا زلزلہ،قطبین کے ملاپ منقطع ہونے کا زلزلہ، جمہوری تماشے میں نئی دھمال کا زلزلہ۔سنا ہے زلزلہ پیما پر اس کی شدت آر پار دراڑ بتائی جاتی ہے یعنی سنبھل جائو نہیں تو ہم قلم ایک طرف دوات دوسری طرف پھنکواوا دیں گے ۔مطلب نہ جائے رفتن ہے نہ جائے ماندن ۔آگے گیلانی ہیں پیچھے رام مادھو کہ دونوں سے نپٹارا نا ممکن ہے۔وہ دن تو لد گئے جب کم تر مصیبت کے نام پر کچھ سال کرسی سنبھالے رہے۔اب کی بار مفتی سرکار اسی لپیٹے میں آگئی ہے جس میں وہی لوگ کنول کو دوات سے باہر کرنے اور ناطہ توڑنے کی بات کرتے ہیں جو پس پردہ نئی سرکار کا کام انجام دے رہے ہیں ؎
میں نے سی ایم کو سلام لکھ بھیجا
وادی کا حال تمام لکھ بھیجا
میں نے پوچھا اعلیٰ وزیر کیسے بنے
اس نے مودی کا نام لکھ بھیجا
میں نے پوچھا کام کچھ باقی ہے کیا
مرد مومن کاخواب ِخرام لکھ بھیجا
میں نے پوچھا حکومت کون گرائے گا
اس نے مادھو رام لکھ بھیجا
اور اس بیچ الیکشن کئی علاقوں میں نزدیک ہیں، اس لئے مودی مہاراج کو مسلم اقلیت یاد آئی۔ پیغمبر صاحب ﷺ یاد آئے، اس لئے روزہ داروں اور روز ہ خوروں کو ماہ رمضان کی پیشگی مبارک باد دے ڈالی۔پیغمبر اسلام ﷺ کی راہ پر چلنے کی تلقین کی۔ایک طرف اقلیتی فرقے کے افراد کی آئی اے ایس میں کامیابی کو مختار نقوی مودی سرکار کی کامیابی جتا رہا ہے یعنی کسی نے کام کیا اس میں مودی کا ہاتھ، کسی نے سوچا اس میں مودی کا دماغ، کسی نے بوجھ اٹھایا اس میں مودی کی پیٹھ ،کسی نے رویا اس میں مودی کی آنکھ،کسی نے ہنسا اس میں مودی کا چہرہ، کسی نے گالی دی اس میں مودی کی زبان۔ چمچہ گری کی بھی حد ہوتی ہے بھائی!دوسری طرف ہریانہ کے بے لگام سیاسی مشٹنڈے پچاس فیصد سے کم والی مسلم آبادی علاقوں میں جمعہ کی نماز پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہیںیعنی اب کی بار مودی سرکار واہ رے واہ واہ، چٹ بھی میری پٹ بھی میری !! اب ہم کیا بولیں، ہم بولیں گے تو بولوگے کہ بولتا ہے،مگر بولنے کے سوا چارہ بھی کیا؟ ابھی ابھی خام خیالی کے نیلے پیلے آکاش سے اُڑتے اُڑتے یہ خبر گوشِ ِ سماعت سے ٹکرائی کہ مودی مہاراج کرناٹک سے ووٹ کا باج لینے کے لئے بے قرراہیں، رات بھر اپنے محل سرا میں نیند نہیں فرماتے ،صرف بستر پر کروٹیں بدلتے رہتے ہیں ، دن کو سوچ سوچ کر اپنا تھکا ماندہ دماغ اور تھکا دیتے ہیں،ناشتہ چائے سے نہیں سیاسی پتنجلی سے کر تے ہیں ، ظہرانے میں جوڑ توڑ کی جڑی بوٹیاں اندر کر تے ہیں ، عصرانہ جملہ بازیوں کی مٹھاس کھٹاس سے ہوجاتا ہے ، عشائیہ سنہرے سپنوں کے سوداسلف سے تیار کر تے ہیں ۔ مہاراج کے سیاسی اوشدھالیہ میں بیٹھے سادھو سنت اورسنیاسی نما پہنچے ہوئے سیاسی مگر مچھ اُن سے کہتے ہیں: مودی جی ! بھگوان کے لئے زعفران زار کے غم میں اتنا نہ گھل جائیں کہ ہم یتیم وبے سہارا ہوجائیں ، ہمیں سوگندھ ہے آپ کے اپنے اچھے دنوں کی کرناٹک آپ کی جیب میں ہے ،بس تھوڑی سی اور تیز طرار جملہ بازیاں کیجئے ، کچھ اور بھاشن کیجئے ، کچھ اور جھوٹے و عدے دیجئے ،کچھ اور جاگتے کے سپنے دکھائے، کچھ اور کوسئے پاکستان کو ، کچھ اور لائین آف کنٹرول کو گرمایئے، کچھ اور ملکوں ملکوں گھوم آیئے، کچھ اورنوٹوں کو بدل دیجئے ، کچھ اور جی ایس ٹی جیسا ظلم ایجادکیجئے ، کچھ اور بلات کاروں کے بارے میں خاموش رہیے، کچھ اور تیل مہنگا کیجئے ، کچھ اور اشیائے خوردنی کی قیمتیں آسمان پر چڑھوایئے ، کچھ اور بے کاروں کی فوج در فوج بڑھوایئے ، کچھ اور کھٹوعہ ، اناؤ، سورت ہونے دیجئے، کچھ اور کسانوں کو خود کشیوں پر مجبور کیجئے ،کچھ اورنئے نعرے نئے منتر دریافت کیجئے، یہ ہوا تو چمتکار دیکھئے کہ اٹھارہ کا الیکشن سیمی فائنل بھی زعفران زار کا، اُنیس کا فائنل بھی ناگپور کا۔ یہ مشیر و صلاح کار ٹھیک کہتے ہیں لیکن مودی جی کی طبیعت ہے کہ سنبھلتی نہیں، حالانکہ اُن کے برے دنوں کے اچھے دن بہت خوب چل رہے ہیں ، لیکن وہ اپنا وکاس اس وقت تک بکواس سمجھتے ہیں جب تک کر ناٹک کا انتخابی بخار اُتر کر ان کی جیت کا کو ئی ناٹکیہ نتیجہ برآمد نہ کرے ۔ سچ کہتے ہیں دل جلے اگر کرناٹک میں بہار کی طرح زعفرانیوں کی ہار ہوئی تو یوگیوں اور جوگیوں کا سیاسی کر یا کرم ہو گا ہی، ساتھ ہی مودی کا کوئی بھی زعفرانی سپنا ساکار نہ ہوگا۔ اس لئے کرناٹک کا انتخابی میدان مارنے کے لئے مہاراج اسی طرح بے چین ہیں جیسے فاروق عبدااللہ ، عمر عبداللہ، لال سنگھ ، گنگا، عبدالحق خان اپنی کھوئی ہوئی وزارتیں اور روٹھی ہوئی قسمتیں واپس پانے کے لئے ماہیٔ بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں اور جانی واکر کی طرح گلی گلی کوچہ کوچہ راج نیتی تیل مالش کی کپی لئے پکارے جا رہے ہیں ؎
سر جو تیرا چکرائے یا دل ڈوبا جائے
آئے جا پیارے پاس ہمارے کاہے گھبرائے
تیل میرا ہے مُشکی گنج رہے نہ خشکی
جس کے سر پر ہاتھ پھرادوں چمکے قسمت اُس کی
………………………….
(رابط[email protected]/9419009169 )